ازقلم: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
ہم شرمندہ ہیں کیونکہ ہم نے آپ کی پاکیزہ قربانی کو ناپاک کردیا ، ہم شرمندہ ہیں کیونکہ ہم نے آپ کی شہادت کا مزاق بنایا، ہم شرمندہ ہیں کیونکہ ہم نے آپ کی آل و اولاد کی قربانیوں کو ڈرامہ بنا کر اسٹیج تک لے گئے اور لوگوں کی آنکھ کان کو لطف اندوز کیا ، ہم شرمندہ ہیں کیونکہ ہم نے آپ کی مصیبت کو پارٹی کا رنگ دیکر دیگیں چڑھانی شروع کر دی ، ہم شرمندہ ہیں کیونکہ ہم نے آپ کے باطل کے سامنے جم جانے ڈٹ جانے کو تحقیر سمجھ لیا اور ہم نے اس کی نمائش بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا ،
اے نواسہ رسول شرمندگی کے سمندر میں ہم ہم غوطہ زن ہیں آپ کے نام پر ہم طرح طرح کے خرافات کررہے ہیں ، رسومات و بدعات دھڑلے سے انجام دے رہے ہیں تیرے نام کا مصنوعی تعزیہ بنا کر فخر کررہے ہیں حد تو یہ ہے کہ مصنوعی کربلا بھی بنا لئے ہیں اور وہاں جاکر مورتیوں کی طرح آپ کے نام کے تعزیہ کو بھسم کردیتے ہیں ،
اے فاطمہ کے جگر پارے آپ کی شہادت کیا ہوی ہم نے من گھڑت قصے کہانیاں بناکر تجھے یاد کرنے لگے ، اے علی کے کلیجے کے ٹکڑے آپ نے محض نانا کی دین کی سربلندی کیلے گھر بار لٹایا تھا معصوموں کی پرواہ کئے بغیر باطل سے نبردآزما ہوئے لیکن ہم نے آپ کے واقعہ کو غلط رخ دیکر اسلام کو سرمشار کیا ، تیرے واقعہ سے ہم نے اسلام کو بدنام کیا ، ڈھول تاشوں کو فروغ دیا گانے بجانے عام کردئیے رقص و سرود کی محفلیں عام ہو گئی انواع و اقسام کی ڈشیں تیار ہوئیں ، اور نہ جانے کیا کیا رسومات پیدا کر لئے ہیں ،
ہم نے تجھ سے عشق کرکے پاکیزہ محبت کو رسوا کیا ، تیرے فرامین و پیغامات کو تہ تیغ کیا پیروں تلے روندا
حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم آپ کی قربانیوں سے سبق لیتے آپ کی مصیبتوں تکلیفوں سے عبرت حاصل کرتے آپ کے کارناموں کو دیکھ کر اسلام کی نشرواشاعت میں دلچسپی لیتے لیکن ہماری عقلیں ماری گئیں ہمارا ذہن و دماغ ماؤف ہو چکا، ہم نے اپنی امی اور اپنے ابو اپنے خاندان و رشتہ دار کی موت پر کبھی ڈھول تاشوں کا اہتمام نہیں کیا ہم غم کھاتے رہے گھروں میں ماتم پسر گیا، آنکھیں بھیگ گئی غم سے نڈھال بدن کو ہسپتال کی ہوا کھانی پڑی لیکن آپ کی شہادت پر ہم نے وہ سب کچھ کیا اور کررہے جو ہمیں کسی طرح سے بھی زیبا نہیں۔
بس ہم شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں۔
حقیقت روایات میں کھو گئی
یہ امت خرافات میں کھو گئی