دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو

از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج ، پٹنہ
رابطہ نمبر : 8429816993

آج میں اپنے ملک کی آزادی پر بے حد اطمینان اور خوشی محسوس کر رہا ہوں ، اور تمام پریشان کن حالات کے باوجود اپنے پر عزم جذبات اور حوصلوں سے کچھ باتیں آپ جیسے غیور اور دانشور حضرات کے سامنے رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
بزرگان دین! کسے خبر نہیں کہ 1947 میں ہمارا پیارا ملک ہندوستان انگریزوں کے ناپاک چنگل سے آزاد ہوا اور یہاں کے بسنے والے سبھی رنگ و نسل کے لوگوں کو آزادی کی زندگی میسر آئی ۔
آزادی انسان کا فطری حق ہے ، انسان اپنے بنانے والے خالق حقیقی کے سوا کسی کی غلامی قبول نہیں کر سکتا ، یہ اس کے مزاج کے خلاف ہے ، انسان صرف اور صرف اللّٰہ تعالٰی کی بندگی اور غلامی کرنے کا مکلف ہے ، بلکہ اس کے لیے اللّٰہ تعالٰی کی غلامی باعث فخر ہے ، اس لیے کہ وہ مالک سب سے بڑا ہے ، سب سے زیادہ طاقتور ہے ، سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور سب سے بڑا مہربان ہے ، اس کی منشاء کے مطابق آدمی کو روزی ملتی ہے ، وہی نوازتا ہے ، وہی کنگال بنا دیتا ہے ، وہی عزت بخشتا ہے ، وہی ذلیل کر دیتا ہے ، وہی بیمار کرتا ہے ، اور وہی شفا دیتا ہے ، غرض یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، لیکن اگر کوئی انسان اپنے جاہ و جلال اور مال و دولت کے باعث چاہے کہ دوسرے لوگ اس کی غلامی کریں ، ہر کام میں اس کی اتباع کریں تو یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے ترم خان آئے جنہوں نے چاہا کہ اس دنیا کو اپنا غلام بنا کر رکھا جائے ، بڑے بڑے بادشاہ گزرے جنہوں نے چاہا کہ انسانوں سے اپنی پرستش کرائیں ، لیکن بالآخر وہ ناکام و نامراد ہو کر رہ گئے ، ذلت و رسوائی اور قوموں کی بغاوت نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا ، خدا کے عذاب نے انہیں ایسا جکڑا کہ وہ رہتی دنیا تک کے لیے نشان عبرت بن گئے ۔

آج سے تقریباً ڈھائی سو سال قبل ہمارے ملک ہندوستان پر انگریزوں نے اپنا تسلط قائم کر لیا تھا ، 1750 تک پورا ملک انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کا غلام ہو چکا تھا ، 1750 میں بنگال کے نواب سراج الدولہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ انگریز اس ملک میں تجارت کرنے نہیں آئے بلکہ اسے غلام بنانے آئے ہیں ، اس دیش کو لوٹنے آئے ہیں ، لہذا! ملک کے مختلف گوشوں میں جب اہل دانش کی آنکھیں کھلیں تو انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا ، احتجاج ہوئے ، لوگ سڑکوں پر نکلے ، انگریزوں نے انہیں مارنا اور گرفتار کرنا شروع کر دیا ، انگریزوں کے خلاف آواز اٹھانے کا مطلب بڑا خطرہ ثابت ہونے لگا ، پھر لوگوں نے خفیہ پلاننگ شروع کی ، کچھ جماعتوں نے پر امن احتجاجات کا سلسلہ جاری کیا ، جنگ و جدل کا دور چلا ، ملک کے طول و عرض میں سیکڑوں میدان جنگ میں خون سے سرخ ہوئے ، لاکھوں لوگوں کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا ، ہزاروں علمائے کرام کو آگ میں ڈال کر سزائے موت دی گئی ، اگرچہ ملک کو آزاد کرانے کی لڑائی میں ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی سب شریک تھے ، لیکن جانتے ہو ؟ سب سے پیش پیش کون لوگ تھے ؟ سب سے زیادہ جنگیں کنہوں نے لڑیں ؟ تمہیں معلوم بھی ہے کہ اس ملک کے لیے سب سے زیادہ گردنیں کن کی کٹیں ؟ سب سے زیادہ جانیں کنہوں نے گنوائیں؟ سب سے بڑھ کر قربانیاں کنہوں نے دیں ؟ جی ہاں! ہم مسلمانوں کے اسلاف و اکابرین نے ، علمائے دین نے ، مسلمان اس دیش کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے شروع سے آخر تک پیش پیش رہے ، جس کی گواہی خود انگریز تاریخ نگاروں نے دی ہے ۔
سامعین کرام! ہم سب جانتے ہیں کہ مجاہدین آزادی کی انتھک کوششوں کے بعد لاکھوں افراد کی قربانیوں کے بعد 1947 کو ہمارا ملک ہندوستان آزاد ہوا ، اور آج ملک کی آزادی کو 75 سال مکمل ہو گئے ، لیکن آپ کو معلوم ہے کہ ظالم انگریز اس آزاد ملک کو کئی طرح کی مصیبتوں میں ڈال کر اس ملک کو ٹکڑے کرانے کی سازش کی ، انگریزوں نے ہی اس دیش میں ہندو مسلم کو لڑانے کے لیے نفرت و فساد کا بیج بویا ، انگریز تو چلے گئے ، لیکن اپنے بعد اپنے ہزاروں حمایت کاروں اور اس دیش کے غداروں کو چھوڑ گئے ، جنہوں نے کل تک انگریزوں کے تلوے چاٹے تھے اور چند پیسوں اور عہدوں کے لیے ظالم انگریزوں کا ساتھ دیا تھا ، وہی بعد میں چل کر اس ملک کی پر امن فضا کے لیے زہر آلود وائرس بن گئے ، انگریزوں کے بعد یہی لوگ اندرونی طور پر اس ملک میں ہندو مسلم کی آگ بھڑکاتے رہے ، دنگے کرواتے رہے ، مسلمانوں کو آتنگوادی بتا کر ہندو بھائیوں کو ڈراتے رہے ، آج ساٹھ ستر سال کی سازشوں کا نتیجہ ہے کہ ملک پر انہیں کے پیروکاروں کی حکومت قائم ہے ، ہزار کوششیں ہو رہی ہیں کہ ملک کو پھر سے غلام بنایا جائے ، ملک کی جمہوریت پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں ، آئین کی کتاب میں تحریف و ترمیم کی جا رہی ہیں ، حق والوں کا حق چھینا جا رہا ہے ، مسلمانوں سے اس ملک کی شہریت مانگی جا رہی ہیں ، یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ اس آزاد دیش کو ہندوراشٹریہ بنا کر پھر ایک بار غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے ، لیکن ان کا یہ ناپاک عزائم کبھی پورا نہیں ہو سکتا ، ان کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ، اس لیے کہ اس ملک کا ہر باشندہ جمہوریت پسند ہے ، اگر اس ملک کو غلامی کی طرف ڈھکیلا گیا تو اس دیش کا عقل مند ہندو ، اس ملک کا امن پسند مسلمان ، اس ملک کا انصاف پسند عیسائی ، اس دیش کا اتحاد پسند سکھ خاموش نہیں بیٹھیں گے ، اگر حکومت کی کرسیوں پر بیٹھنے والے سٹیزن شپ امنڈ منٹ ایکٹ لا کر ، اگر وہ آر ٹی آئی میں تبدیلی کر کے ، اگر وہ ٹرپل طلاق بل پاس کر کے ، اگر وہ میڈیا پر قبضہ جما کر ، اگر وہ دیش کے مشہور مقامات کو گروی رکھ کر ، اگر وہ دو کوڑی کا آئ ٹی سیل بنا کر ، اگر وہ آر ایس ایس کی دلالی کا دم بھر کر ، اگر وہ یونی فارم سول کوڈ کی بات کر کے اور اگر وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنا کر اور اگر سیکولر دیش میں ہندو راشٹر کی بات کر کے وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اب اس ملک کو غلام بنانا آسان ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے ، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے ، اس لیے اب اس دیش کو غلام بنانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ، یہ دیش آزاد تھا ، آزاد ہے ، اور آزاد رہے گا ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابلِ فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی ، اور اپنی آنکھوں میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کے خواب کے لیے جان و تن نچھاور کیا ، سخت ترین اذیتوں کو جھیلا ، خطرناک سزاؤں کو برداشت کیا ، طرح طرح کی مصیبتوں سے دو چار ہوئے ، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے ، لیکن برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے ، اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے ، کبھی میدان سے راہ فرار اختیار نہیں کی ، اور نہ ہی کسی موقع پر ملک و وطن کی محبت میں کمی آنے دی ۔
الغرض! یہ کہ مسلمانوں نے آزادی کی جنگ میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ، اور جان ہتھیلیوں میں رکھ کر انگریزوں کا مقابلہ کیا ، اور صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام برادرانِ وطن کی آزادی ، ان کے تحفظ ، ملک کی سلامتی ، تہذیب و تمدن کی حفاظت اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے جنگ آزادی میں بے مثال کارنامہ انجام دیا ۔
آج پندرہ اگست کے موقع پر میں یہ کھل کر کہنا چاہتا ہوں کہ اس ملک کے چپے چپے پر ، اس دیش کے خطے خطے پر ، ذرے ذرے اور بوٹے بوٹے پر ، ہم سب کا برابر حق ہے ، کوئی اس دیش میں ہم کو ڈرا نہیں سکتا ، کوئی اس دیش سے ہم کو بھگا نہیں سکتا ، کتنی ہی آندھی چلے یا طوفان آئے ، کوئی اس دیش کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، میں اس بات پر مطمئن ہوں کہ ہمارا دیش آج بھی آزاد ہے ، اور میں پر امید ہوں کہ ہمارا دیش کل بھی آزاد رہے گا ۔
ملک ہندوستان کی موجودہ صورت حال میں ہم سب مل کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں ، اور اپنے ملک کی بقاء کے لئے اس قدر مستحکم ہو جائیں کہ ہمارے ملک کے خلاف غلط عزائم اور منصوبے کرنے والوں کے ارادے خاک میں مل جائیں ۔
میں اپنے تمام بھائیوں سے عرض کرتا ہوں کہ ہمیں موجودہ حالات میں حکومت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ ملک کسی مذہب کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ہندو ،مسلم ، سکھ اور عیسائی سب کا ہے ، اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے کندھوں سے کندھا ملا کر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بھر پور حصہ لیا ، اور آج اس کی تطہیر و ترقی میں حصہ لے رہے ہیں ، اس لیے ہمیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، اپنا تعلق اللّٰہ تعالٰی سے مضبوط کریں ، فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں ۔
اللّٰہ رب العزت ہم سب کو اختلافات و تنازعات سے بچنے اور اتحاد و اتفاق اور امن و سلامتی ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین ثم آمین یارب العالمین