عالمی غذائی بحران

ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

غذا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے،اس کی وجہ سے جسم وجان کا رشتہ بر قرار رہتا ہے، غذا نہ ملے تو انسان موت کی نیند سوجاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے سات سال قبل اپنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ۲۰۳۰ء تک دنیا سے غذائی بحران کو دور کرکے انسانی آبادی کو بھوکے رہنے سے بچالیا جائے گا، لیکن دیگر ممالک کے تعاون کے باوجود یہ عزم یوں ہی رہا، زمینی سطح پر غذائی بحران دور کرنے کی کوئی شکل نکل نہیں پائی، آج صورت حال یہ ہے کہ اقوام متحدہ ہی کی ذیلی تنظیم ورلڈ فورڈ کے اعداد وشمار کے مطابق غذائی قلت کی وجہ سے براسی (۸۲) کروڑ، اسی (۸۰) لاکھ لوگ بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں یہ تعداد صرف تیرہ (۱۳) کروڑ پچاس لاکھ تھی، ورلڈ فورڈ رپورٹ کے مطابق پینتالیس (۴۵) ملکوں کے پانچ کروڑ لوگ غذائی قلت کی وجہ سے بھوک مری کے دہانے تک پہونچ گیے ہیں اور بھوکے رہنے اور سونے والے افراد کی تعداد میں پچپن (۵۵) فی صد کا اضافہ ہوا ہے، اس صورت حال کے پیدا کرنے میں روس اور یوکرین کی طویل ہو رہی جنگ کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، کیوںکہ روس اور یوکرین پوری دنیا میں گیہوں کی فراہمی کا بڑا مرکز رہا ہے، ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں استعمال ہونے والے گیہوں کی مقدار کا ایک تہائی یہی دونوں ملک فراہم کراتے تھے، ترکی کی ثالثی میں گیہوں کی بر آمدگی کو دورجاری کرنے کے ایک معاہدہ کے باوجود عملا یہ ممکن نہیں ہو رہا ہے، اس لیے غذائی بحران دور ہونے کی فی الحال کوئی شکل نہیں بن رہی ہے، ایتھوپیا، صومالیہ، یمن ، جنوبی سوڈان، افغانستان اور سری لنکا غذائی قلت کا زیادہ سامنا کر رہے ہیں، ان ملکوں کی عوام میں بے چینی ہے اور اس بے چینی کے نتیجے میں سیاسی اتھل پتھل جاری ہے، امیر ممالک مثلا امریکہ اور چین اس معاملہ میں سرد مہری برت رہے ہیں، جی ۔۷ سے متعلق ممالک نے صرف ۵-۴؍ ارب ڈالر دینے کی بات کہی تھی، اس سے اتنی بڑی دنیا کا کیا بھلا ہو سکتا ہے۔
بچوں کی فلاح وبہبود سے متعلق ایک ادارہ یونیسیف ہے، ۲۳؍ جون ۲۰۲۲ء کو جو رپورٹ اس نے جاری کی ہے اس کے مطابق اسی (۸۰) لاکھ بچے غذائی قلت کی وجہ سے موت کی سرحد پر دستک دے رہے ہیں۔ جو مر گیے ان میں پینتالیں (۴۵) فی صد غذائیت کی کمی سے گیے۔
ہندوستان کی حالت بھی کوئی اچھی نہیں ہے، ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ۳۰۷ ؍ کروڑ کی آبادی بھر پور غذائیت سے محروم ہے، ان میں تقریبا ایک تہائی سنتانوے کروڑ سے زیادہ لوگ ہمارے ملک ہندوستان میں بستے ہیں، نیپال اور پاکستان کی حالت اور بھی خراب ہے، کیوں کہ پاکستان میں ۵ء ۱۳ ؍ فی صد اور نیپال میں چوراسی (۸۴) فی صد لوگ ایسی غذا کے حصول سے محروم ہیں جو انہیں بھر پور غذائیت فراہم کر سکے۔
مکمل غذائیت کے حصول کے لیے آمدنی ضروری ہے، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آگنائزیشن جو اقوام متحدہ کی ہی ذیلی تنظیم ہے اس کے مطابق ہندوستان میں ۷ئ۲؍ ڈالر، ایشیا کے لیے ۷۱۵ئ۳؍ ڈالر اور عالمی سطح پر ۵۳۷ئ۳؍ ڈالر میں غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی ممکن ہے، ہندوستان میں اوسط آمدنی مقررہ اعداد وشمارسے کم ہے، اس لیے ہندوستانی شہریوں کے لئے خوراک کا حصول ہی دشوار ہوتا ہے ، چہ جائے کہ بھر پور غذائیت کا خواب دیکھا جائے، غذائی قلت کی وجہ سے انسانی جسم کمزور ہوتا ہے اور اس کے کام کرنے کی صلاحیت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے، جو مضبوط اعصاب کے نہیں ہوتے وہ غلط راہوں پر چلے جاتے ہیں، لوٹ مار، تشدد کا بازار گرم ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے سماج کو نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہندوستان زراعت پر منحصر آبادی والا ملک ہے، ہمارے کسان ہی کھیتوں میں محنت کرکے ہمارے لیے غذائی اجناس اگاتے ہیں، اگر ہم ہم کسانوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں انہیں آبپاشی، بیج اور کھاد کی فراہمی میں سہولت دے سکیں ، ان کی فصلوں کی معقول قیمت مار کیٹ میں ملے ، اونے پونے فصل خرید کر ان کا استحصال نہ کیا جائے تو یہ ملک غذائی اجناس کی قلت سے بچ جائے گا اور فاقہ کشی کے اعداد وشمار میں کمی آئے گی، ظاہر ہے یہ کام حکومت کا ہے ملک کو غذا کے اعتبار سے خود کفیل بنانے کے سمت میں حکومت اپنی کوششیں تیز کرنی چاہیے، تاکہ یہاں کے حالات دگر گوں نہ ہوں۔