ازقلم: نقی احمد ندوی
ریاض، سعودی عربیہ
کون کہتا ہے کہ مسلم لڑکیاں کمزور ہوتی ہیں، ہماری مسلم لڑکیاں بھی ہر میدان میں اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑتی ہیں بس ہمیں معلوم نہیں ہوپاتا۔ بنجامن فرنکلن کا مشہور قول ہے کہ انرجی اور تسلسل سے آپ کچھ بھی فتح کرسکتے ہیں مگر بدقسمتی سے بہت سے لوگوں کو یہی معلوم نہیں ہوتا کہ زندگی میں کرنا کیا ہے اور کس منزل کو فتح کرنا ہے؟
ہندوستان میں سب سے اونچی نوکری سول سروسز تسلیم کی جاتی ہے، نہ جانے کتنے بچے کلکٹر اور آئی اے ایس آفیسر بننے کا خواب دیکھتے ہیں، مگر صرف خواب دیکھنا کافی نہیں جیسا کہ سابق صدر جمہوریہ ہند آے پی جے عبد الکلام نے کہا ہے کہ خواب وہ نہیں جو آپ سوکر دیکھیں بلکہ خواب وہ ہے جو آپ کو سونے نہ دے۔ اورایسا ہی خواب دلی کی جھونپڑپٹی میں رہنے والی ایک لڑکی نے دیکھا۔ غربت، تنگ حالی، بیکسی اور مجبوری نے اسے اونچی اڑان سے روکنے کی بھرپور کوشش کی، مگر اس نے کامیاب ہوکر دکھا دیا۔
ام الخیر بہت چھوٹی تھی جب اس کی فیملی دلی کے نظام الدین علاقے میں واقع جھونپڑپٹی میں منتقل ہوئی۔ اس کے دالد ایک ہاکر کا کام کرنے لگے اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے کپڑے بیچا کرتے۔ ویسے تو گذارہ ہی مشکل سے ہورہا تھا مگر ایک بڑی مصیبت آپڑی جب دلی حکومت نے اس جھونپڑ پٹی کو توڑنے کا حکم دے دیاجہاں یہ لوگ رہتے تھے۔ ام الخیر کی فیملی نے تریلوک پوری کے ایک سلم میں پناہ لے لی اور اپنا ایک نیا آشیانہ اس سلم میں بنا لیا۔اسی دوران راجستھان کے پالی میں پیدا ہونے والی اس لڑکی کو ہڈی کی ایک بیماری لاحق ہوگئی جسے Bone Fragile Disorderکہتے ہیں۔ اس بیماری میں ہڈیا ں کمزور ہوجاتی ہیں اور بہت جلدی ہڈیوں میں فریکچر آجاتا ہے۔ چنانچہ ام الخیر کو اس خطرناک بیماری کی وجہ سے اب تک سولہ فریکچرہوچکے ہیں اور چھ سرجریاں کی جاچکی ہیں۔
مگر یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہونگی کہ ام الخیر نے نہ صرف اپنے والدین اور شہر کا بلکہ پورے صوبہ کا نام روشن کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی کہانی ہندوستان کی لاکھوں نوخیز لڑکیوں کے لئے امید، حوصلہ اور زندگی میں کچھ کرگذرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ بچپن سے لیکر ایک آئی اے ایس آفیسر تک بننے کا ام الخیر کاسفر بڑے طوفانوں سے گھرا رہا ہے۔ ایک سلم میں رہنے کے باعث اسے تعلیم میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے گھروالوں کی حالت ٹھیک نہیں تھی، اس لئے اس نے بہت ہی کم عمری میں ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا تھا۔ اپنے ٹیوشن سے کما کما کر وہ اپنے اسکول کی فیس دیا کرتی۔ اس کے باوجود اس نے دسویں کلاس میں اکانوے فیصداور بارہویں میں نواسی فیصد نمبرات حاصل کرکے ایک شاندار کامیابی رقم کی۔ پھر دلی یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد جے این یو میں انٹرنیشنل ریلشن میں ایم اے کیا، اس کے بعد وہیں ایم فیل اور پی ایچ ڈی میں ایڈمیشن لے لیااور اسی کے ساتھ ساتھ یو پی ایس سی کی تیاری میں مشغول ہوگئی۔ چنانچہ اپنی ذبردست محنت اور لگن سے اس نے پہلی ہی مرتبہ میں یوپی ایس سی کا امتحان 2017 میں پاس کرلیا۔ پورے انڈیا میں اس کا رینک چار سو بیس آیا اور وہ ایک آئی اے ایس آفیسر بن گئی۔ آج ام الخیر کی کامیابی کی داستان ہزاروں بچوں کے دلوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیداکرتی ہے۔
ایک طرف غربت اور تنگ دستی ایسی کہ اسکول کی فیس اداکرنے سے قاصر اور دوسری طرف صحت ایسی کہ وقفے وقفے سے سرجری، مگر ہمت دیکھئے کہ امتحان میں اچھے نمبرات سے پاس کرتی رہی، اور یہی نہیں بلکہ ہندوستان کے سب سے اعلی اور اونچی نوکری پر اپنا نام لکھوالیا۔ واقعی ایسے حوصلوں کے سامنے پہاڑ بھی اپنا سر جھکا دیتے ہیں اورایسے آہنی ارادوں کے سامنے بڑے بڑے مشکلات بھی اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔ آپ کے پاس تو صحت بھی ہے اور دولت بھی، وسائل بھی ہیں اور رہنمائی اور گائیڈنس بھی، بس ایک منزل کی کمی ہے، ایک خواب کی ضرورت ہے، بس خواب دیکھئے اور چاہے جیسے بھی حالات ہوں ان سے لڑتے رہیے اور اپنی منزل پر فوکس رکھئے یقینا ام الخیر کی طرح آپ بھی اپنی شاندار کامیابی کی داستان بہت جلد رقم کرسکتے ہیں۔