کہتا ہے دل کہ پھینک دوں ٹی وی زمین پر
جعلی خبر کا چار سُو بازار گرم ہے
ان نیوز رِیڈرُوں کو حیا ہے، نہ شرم ہے
کم بخت یُوز کرتےہیں، اُوچھی زبان کا
دم گُھٹ رہا ہے دیش میں امن و امان کا
چیخ و پُکار ان کی مکمل ڈِبیِٹ ہے
مُدّا، ہو یا وِواد ،سبھی ڈُپلِکیٹ ہے
ان کے سبب ہی چور شریفوں کے ‘ دل’ میں ہیں
گھوڑے ہیں دھوبی گھاٹ ، گدھے اصطبل میں ہیں
کتنے ہیں حق پرست ، ابھی زیرِ غور ہیں
باقی تو میڈیا میں سبھی گھوس خور ہیں
نکلےگی کیا دعا بھلا، ایسوں کے واسطے
سودا کریں ضمیر کا پیسوں کے واسطے
ایسے حرام خوروں کو خارِش رہے سدا
پورے بدن پہ پھوُڑوں کی بارش رہے سدا
دو پل کبھی ، گزار نہ پائیں سکون کے
پڑ جائیں اضطراب میں دورے ُجُنوُن کے
سڑجائیں اِن کے پھیپڑے، لِیور خراب ہوں
ٹھنڈی اندھیری رات میں خُونی جُلاب ہوں
ہوجائیں جب وہ، مبتلا ڈینگو بخار میں
اک ڈاکٹر نہ مِل سکے قرب و جوار میں
فالج ہو ان کے پاؤں میں، ہِمریج سر میں ہوں
ہوجائے! اِکسِڈینٹ ،جو لمبے سفر میں ہوں
پک جائیں کان، کچھ بھی سُنائی نہ دےانہیں
آنکھوں سے دن دہاڑے،دکھائی نہ دے انہیں
پتھری کےبدلے،دونوں بھی گُردوُں میں کانچ ہو
اِیسیڈِٹی ہو، ایسی کہ معدے میں آنچ ہو
موذی مرض کا ان پہ کچھ ایسا اٹیک ہو
ہوجائے دل بُلاک تو، بھیجا کریک ہو
فِیوچر میں اِن کی نسلیں،اپاہج ہوں وِیک ہوں
مانگیں وہ بھیک، ساتھ میں ہِجڑے شریک ہوں
راتوں کو جاگ کر اُاٹھیں بھوتوں کےخواب سے
ہوتے رہیں، وہ آشنا سارے عذاب سے
اس میڈیا کی اے خدا مٹی پلید ہو
ہے آرزو یہی کہ، جہنم رسید ہو
یہ بد دعا ، کی شکل میں دل کا غبار ہے
کب کس کو کیا مِلے یہ ‘ تجھے’ اِختیار ہے
ہم شاعروں کی ہائے سے ڈر جائے میڈیا
آخر میں ہے دعا کہ، سُدھر،جائے میڈیا