غزل: جس کا یقیں نھیں تھا وہی سانحہ ہوا

ہم سے ہما ر ے جسم کا سا یا جد ا ہو ا
جس کا یقیں نھیں تھا وہی سانحہ ہوا

پڑھتا ر ہا صحیفہء ا قد س کی طر ح میں
میر ی ہتھیلیو ں پہ ہے کیا کیا لکھا ہو ا

ا شکو ں سے میں نے را ت کے د من بھگو ئے ہیں
تب جا کے میر ا حا ل کہیں آ ئینہ ہو ا

پہلو میں آ کے لیٹ گئی چا ند نی مر ے
حیر ت سے تک ر ہا تھا د ر یچہ کھلا ہو ا

آنکھیں بجھی بجھی سی ہیں چہرہ دھواں دھواں
کیو ں ا س قد ر ملو ل ہو ؟ کیا سا نحہ ہو ا

پھر مجھ پہ منکشف ہو ئی بے چہر گی مر ی
پھر آ ج آ ئینے سے مر ا سا منا ہو ا

نیچے ز مین مجھ سے بہت فا صلے پہ تھی
حیر ا ن تھا میں چھت پہ ا کیلا کھڑ ا ہو ا

مسر و ر میر ے نام کی تختی ا تا ر کر
لکھ د و کہ یہ مکا ن ہے کھا لی پڑ ا ہو ا

انس مسرور انصاری

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
9453347784

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے