عالمی کتاب ڈے

تحریر: محمد ظفر نوری ازہری
ہمارا دھیرے دھیرے کتابوں سے رشتہ ختم سا ہوتا جارہا ہے مطالعے کا رجحان بھی دن با دن گھٹتا جارہا ہے ! کتابوں سے دوستی یہ کیا چیز ہوتی ہے ہم پہچانتے ہی نہیں ہیں جبکہ عربی زبان کے ایک مشہور شاعر متنبی(متوفی ٣٥٤ھ) نےاپنے ایک شعر کے  مصرعہ میں کچھ اس طرح کہا  ہے”و خیر جلیس فی الزمان کتاب ” اس مصرعے کا مطلب یہ ہے کہ زمانے میں بہترین ساتھی اور ہمنشین کتاب ہے "بہت کم لوگ ہیں جو کتابوں سے دوستی کرتے ہیں جبکہ کتابیں وہ ساتھی ہیں جو آپ سے کبھی کچھ نہیں لیتی ہیں بلکہ  ہمشہ کچھ نہ کچھ دیتی ہی ہیں یہ آپ کو ہمت وحصلہ دیتی ہیں، ماضی کی سیر کراتی ہیں ،حال اور مستقبل سے باخبر کرتی ہیں ، علم کو بڑھاتی ہیں،  فکر کو روشن کرتی ہیں ،معاشرے کو عروج و ارتقاء بخشتی ہیں، وسوسہ اور غم کو دور کرتی ہیں، حسن کلام اور حسن کتابت سے ہمکنار کرتی ہیں، علماء کے علوم اور حکماء کی حکمتوں سے سرشار کرتی ہیں، اپنے پڑھنے والوں کو قابل رشق اور لائق احترام بناتی ہیں ،علامہ، مولانا، مفتی، محدث، مفسر، مفکر، مدبر، ادیب، شاعر، فلسفی، سائنٹسٹ، اور بے شمار علوم و فنون میں ماہر بناتی ہیں  بڑے بڑے عہدوں اور مناصب  تک پہونچادیتی ہیں ،جھوٹ، غیبت ،چغلی، حسد ،کینہ اور تمام بری چیزوں سے بچاتی ہیں، آپ کے استاتذہ تھک جائیں گے مگر یہ کبھی تھکتی  بھی نہیں ہیں آپ کے دوست و احباب آپ سے اکتا سکتے ہیں مگر یہ کبھی اکتاتی بھی نہیں ہیں اور یہ کتابیں ہی تو ہیں جو عالم تصور میں ہماری ملاقات امام اعظم   امام بخاری ،غوث اعظم، امام غزالی، حضرت خواجہ غریب نواز، اور امام احمد رضا خان اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضوان اللہ علیہم اجمعین  جیسی جلیل القدر ہستیوں سے کراتی ہیں ان کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے ان کتابوں میں!
 اتنی خوبیوں کے باوجود پھر ہمارا کتابوں سے رشتہ کمزور کیوں پڑ تا جا رہا ہے؟ مطالعہ کا فقدان کیوں بڑھتا جارہا ہے! ہم کتابوں سے اس قدر دور ہو گئے ہیں کہ  آج ہم میں زیادہ تر لوگوں کے گھروں میں بھی کوئی کتاب نہیں ہے  اور جو کتابیں ہیں ان پر دھول چھارہی ہے ،دیمک لگ گئی ہے ان کتابوں کی بھی حسرت ہوتی ہوگی کہ کوئی انہے بھی پڑھے، کوئی ان کے ساتھ  بھی وقت گزارے ان کے گھر بھی آباد کرے،  ہمارے شہروں میں کہیں کہیں اکا دکا کتاب گھر ( لائبریری) نظر آتی ہے  جہاں صرف صرف کتابیں ہی رہتی ہیں! پڑھنے والے وہاں بھی نہیں ہیں  لیکن وہیں دوسری طرف  ہم کھانے پینے کے ہوٹلوں کا جائزہ لیں تو شہر اور ہائی پروفائل سٹیز کو چھوڑو بلکہ گاؤں اور  دیہاتوں  میں بھی ہمیں قدم قدم پر ہوٹل ڈھابے مل جائیں گے جن کی وجہ سے ہمارے پیٹ بڑھتے جا رہے ہیں اور دماغ فکرو شعور سے خالی ہوتے جارہے ہیں اور تو اور کچھ  جگہیں ایسی بھی ہیں  کہ جہاں کتابیں فٹ پاتھ پر بے ابرو  بک رہی ہیں اور وہیں جوتے کانچ کے شو روم میں عزت کے ساتھ سجے دھجے ہوئے ہیں جب ایسے حالات ہونگے تو لوگ کیسے کتابوں اور مطالعہ کے قریب ہوں گے !  وہ تو غنیمت ہے ہر مذہب کتاب کی عزت واحترام کا درس دیتا ہے جس سے لوگوں کے دلوں ابھی بھی تھوڑا بہت کتابوں کا احترام باقی ہے ورنہ وہ بھی ختم ہوجاتا اور مذہب اسلام نے کس طرح  کتب کے ادب و احترام اور مطالعہ کی دعوت دی ملاحظہ فرمائیں:
 اللہ رب العزت کی مقدس کتاب قرآن شریف نے ابتدا ہی میں اپنا تعارف لفظ "کتاب” سے یوں فرمایا "ذالک الکتاب لاریب فیہ” یعنی یہ وہ کتاب ہے جس  میں شک کی گنجائش نہیں اور قرآن شریف میں جو کلمہ سب سے پہلے نازل ہوا وہ بھی "اقراء” ہے یہ یعنی پڑھو اس کا تعلق بھی کتاب سے ہی ہے اور قرآن شریف کے چار مشہور ناموں سے ایک نام "الکتاب” بھی ہے کیونکہ قرآن شریف صرف زبانی کلام ہی نہیں ہے بلکہ الفاظ اور حروف سے لکھا ہوا مجموعہ بھی ہے اور لوح محفوظ میں بھی لکھا ہے اور قرآن شریف سے پہلے بھی اللہ پاک اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے کئی صحیفے اور کتابیں نازل فرمایا جیسے توریت زبور انجیل وغیرہ  اللہ پاک کی رحمت  نے بندوں کو ہمیشہ کتابوں سے قریب رکھا لیکن آج افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلم دنیا پڑھنے اور کاغذ قلم سے کافی دور نظر آرہی ہےاور  وہ ممالک جہاں سب سے زیادہ کتابیں چھپتی اور بکتی ہیں   وہ یہ ہیں امریکہ، جاپان، چین، انگلینڈ، فرانس، کناڈا’ اسٹرلیا اور اٹلی وغیرہ یورپین ممالک  ان کے علاوہ دنیا میں اٹھائیس سے زیادہ ایسے  ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں اور قابلِ افسوس کی بات ہے کہ ان میں کوئی مسلم ملک نہیں ہے!
وہیں اگر ہم ماضی کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک سے ایک مسلم سائنسداں، مفکر، فلسفی،مورخ اور ادیب  نظر آتے ہیں کیونکہ اس وقت ہمارا کتابوں سے رشتہ مضبوط تھا پڑھنے پڑھانے کے بڑے بڑے مراکز مسلم ممالک میں تھے اور بڑی بڑی لائیبریاں اور کتب خانے بھی یہیں تھے! غرناطہ، قرطبہ اور بغداد جس کی واضح مثالیں ہیں ! سقوط بغداد کے بعد وہاں کی کتابوں کو جلادیا گیا اور دریا ئے دجلہ کے حوالے کردیا گیا !تمام کتب خانے، درس

گاہیں اور دانشگاہیں ختم کردی گئیں اور ہندوستان ١۸٥۷ میں سلطنت مغلیہ کے خاتمے کے بعد لال قلعے میں موجود  لائبریری کی تمام کتابیں لندن پہونچادی گئیں! انڈیا آفس لائیبریری اور پیرس لائیبریری میں مسلمانوں کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں!

پہلے لوگوں میں مطالعے کا کیسا شوق تھا دیکھیں: حضرت امام مسلم علیہ الرحمہ کا وصال ۲٦١ھ میں  مطالعہ میں استغراق اور انہماک کی وجہ سے ہوا! امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں آپ ایک حدیث تلاش فرمارہے تھے اسی کی کھوج میں ڈوبے ہوئے تھے اور آپ کے  پاس میں کھجوروں کی ایک ٹکری رکھی ہوئی تھی مطالعہ میں  منہمک ہونے کی وجہ سے پتہ  ہی نہیں چلا کہ آپ کتنی کھجوریں کھاگئے ہیں! اور کھجوروں کا زیادہ کھالینا آپ کے انتقال کا سبب بن گیا (جامع الاحادیث مقدمہ )کہتے ہیں جسے مطالعہ کی لذت،ذوق اور چاشنی مل جائے اس کو دنیا کی  تمام چیزیں پھیکی  لگنے لگتی ہیں ۔جاحظ (عہد عباسی کا عربی زبان کا نامور ادیب تھا) (متوفی ۲٥٥ھ) مطالعہ کی وصیت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مطالعہ سے غم دور ہوتے ہیں (لاتحزن عائض قرنی)  چھٹی صدی کے ایک حنبلی عالم دین امام الخشاب (متوفی ٥٦۷) کے بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے اپ نے ایک دن ایک کتاب خریدی ٥۰۰ درہم میں اور قیمت ادا کرنے کےلئے ان کے پاس اس وقت نہ ہی ان کے پاس درہم اور نہ ہی  کوئی چیز نہیں تھی! لہذا انہوں نے تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہوکر مکان بیچنے کا اعلان کیا اس طرح اپنے شوق کو پورا کیا (طبقات الحنابلہ جلد ۲) امام اسحاق ابن رہویہ(متوفی ۲٣۸)نے سلیمان بن زغندانی (متوفی۲۲١)کی بیٹی سی شادی اس لئے کی تھی کہ اس نکاح سے انہیں امام شافعی (متوفی ۲۰٤) کا کتب خانہ مل جائے! سبحان اللہ….!!! کیا محبت تھی مطالعہ اور کتابوں سے اسکے علاوہ اوربھی  بہت سے واقعات ہیں !
  اب یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتابیں پڑھنے کا شوق کیسے پیدا ہو؟ تواس کے لیے  چاہیے کہ ہم اچھی اچھی کتابیں خریدیں اور اپنے گھروں میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنائیں اور روزانہ کچھ نا کچھ ضرور مطالعہ کریں کیوں کہ  مشہور مالدار شخص بلگسٹ  بھی روزانہ چند صفحات مطالعہ کرتا ہے اور تقریبا ہر کامیاب آدمی مطالعہ ضرور کرتا ہے اپنے دوست و احباب کو کتابیں تحفے میں دیں اور اپنے بچوں کو بھی شروع سے کتابیں پڑھنے کا درس دیں ان کے لیے کھلونوں کے ساتھ کوئی نا کوئی کتاب بھی خرید کر دیں جس سے ان کے اندر شروع سے ہی پڑھنے کا شوق پیدا ہو! راقم الحروف جن دنوں میں جامعہ ازہر قاہرہ میں زیرِ تعلیم  تھا میں نے وہاں دیکھا کہ ہرسال قاہرہ میں  عالمی بک فیئر (کتابی میلہ )لگتا ہے  جس میں لوگ اس طرح کتابیں خریدنے جاتے ہیں  جس طرح ہمارے یہاں لوگ میلوں میں شوق و ذوق  کے ساتھ  جاتے ہیں اور زیادہ تر  مصریوں کے گھر میں ایک جھوٹی سی لائبریری بھی ہوتی ہے جس میں ضروری کتابیں ہوتی ہیں  ہمیں بھی چاہیے کہ جس طرح ہم کولر، فیریز، اے سی اور اچھے اچھے فرنیچرس سے اپنے گھروں کو آراستہ کرتے ہیں اسی طرح ایک چھوٹی سی  لائبریری کا بھی اہتمام کریں جس سے ہمیں روحانی ،ذہنی اور دماغی غذا ملے اور ہماری باتوں میں تحقیق جاذبیت اور مٹھاس پیدا ہو! جب ہم بولیں تو بس لوگ  سنتے ہی رہیں۔
 اور آخر یہ بھی بتادو  کہ ۲٣ اپریل کی تاریخ  پوری دنیا میں "کتاب ڈے” کے طور پر منائی جاتی ہے کتابوں کے عالمی دن کا آغاز ١٦١٦ء سے ہوا اور اقوام متحدہ کے ادارے یونسکو نے ١۹۹٥ کو ۲٣ اپریل کو عالمی بک ڈے قرار دیا تھا۔ آسیا تہران ۲٣ اپریل ۲۰١۹

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے