وَإِذَا ٱلْمَوْءُۥدَةُ سُئِلَتْ ٨ بِأَىِّ ذَنۢبٍۢ قُتِلَتْ ٩ (التکویر)
ترجمہ: اور جب زندہ در گور کی گئی لڑکی سےپوچھا جائے گاکہ کس گناہ میں ماری گئی
جب انسان پست اخلاقی کے دلدل میں دھنستا چلا جاتاہے تو اس میں اچھے بُرےکی تمیزاٹھ جاتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ جب لڑکیوں کی پیدائش کا علم ان کے گھر والوں کوہوتا تو ان کے چہروں پر کلونس وپزمردگی چھا جاتی تھے اوورشرم کے مارے منھ چھپاتے پھرتےتھےکیونکہ ان کی نظر میں لڑکی کا پیدا ہونا بے وقعت اور ذلیل ہونے کی علامت تھی اس لئے اسے صفحۂ سے مٹانے کی بھر پور سعی کی جاتی تھی۔
اس ظلمتِ شب سے گردشِ حیات شب کی تاریکیوں کو چاک کرتے ہوئے طلوعِ سحر لےکر آتی ہے۔ اوریہ قرآن کا اعزاز ہے کہ اس نے عورت کو حقِ حیات عطا کیا۔ دختر کشی کے خلاف شدت سے آواز بلند کیا اور کہا کہ جو کوئی بھی ان پر دست درازی کرےگا قیامت کے دن ا س کی بازپرس سے بچ نہ سکے گا۔اللہ نے اس دن سنگ دل باپ اور شقی القلب ماں جس نے اپنے ہاتھوں سے بچی کو زیر زمیں کیا تھا سخت ناراض ہو گا۔منھ ہی نہیں لگائے گا بلکہ اس مظلوم سے پوچھے گا پھر وہ بتائے گی کہ اس کی آنکھیں جو کھلی بھی نہ تھیں بند کر دیا گیا یعنی کہ دنیاکو جی بھر کے دیکھنے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا۔ایسے والدین اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچا نہ پائیں گے۔
اس طرح قرآن نےاپنے ماننے والوں کو نبی� کی زبان سے لڑکیوں کی پیدائش اور تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت دی۔ در حقیقت آج سے نہیں قدیم زمانے سے مردوں کی بالا دستی چلی آ رہی ہے۔ وہ عورتوں کو نہ صرف کمتر سمجھتے ہیں بلکہ ان کے حقوق کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف یہ قرآن ہی کا احسان ہے کہ اس نے نہ صرف عورتوں کا مقام و مرتبہ بلند کیا ، دنیا و آخرت میں برابری کا وعدہ کیا بلکہ حقِ وراثت میں بھی شریک کیا جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌۭ مِّمَّا تَرَكَ ٱلْوَٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌۭ مِّمَّا
تَرَكَ ٱلْوَٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًۭا مَّفْرُوضًۭا ٧ (انساء)
مردوں کے لئے اس مال میں حصّہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو ، اور عورتوں کے لئے اس مال میں حصّہ ہےجو ماں باپ رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت ، اور یہ حصّہ( اللہ کی طرف سے )سے مقررہے۔
مزید ان کی قدر و قیمت کو بڑھانے، نہ صرف گھر بلکہ بیرون خانہ تحفظ کا احساس دلانے کے لئے اللہ نے ایمان کے بعد سب سے خوبصورت تحفہ”پردہ”کی شکل میں عطا کردیا جو اس کی عزت و ناموس کے لئے ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے اور شیطان اور اس کے حواریوں کی غلیظ نگاہوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ قلعہ ۔ چنانچہ صدائے رفعت گونجتی ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا ٥٩ ( الاحزاب)
]ترجمہ :اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں، یہ
زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے۔[
عورت اللہ کا عطیہ ہے۔ اللہ نے انسانوں کو زوجین کی شکل (مرد اور عورت)میں پیدا کیا۔اکثر لوگ بیویوں کواپنا غلام سمجھتے ہیں چنانچہ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیافرمایا :
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا۟ ٱلنِّسَآءَ كَرْهًۭا ۖ ( نساء 19)
]ترجمہ :اے ایمان والو تمھارے لئے جائز نہیں کہ عورتوں کے زبردستی وارث بنو[
واضح رہے کہ یہ حقوق 1400 سال پہلے قرآن نے اس وقت دئے جب اسے غلامی کیا زندہ رہنے کا بھی حق نہ تھا۔ پھر فرمایا:
هُنَّ لِبَاسٌۭ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌۭ لَّهُنَّ ۗ ]ترجمہ: وہ ( بیویاں) تم مردوں کے لئے لباس اور تم(شوہر) ان(بیویوں) کے لئے لباس ہو[
بھلا اس سے بہتر کوئی خوبصورت لفظ ہو سکتا ہے ، اس زوجیت کے قرب کو ظاہر کرنے کے لئے؟ ر ب کائنات کو زوجین کے اس تعلق کو لباس سے تعبیر فرما کرجہاں ایک دوسرے کی اس قدر قربت مطلوب ہے وہیں ایک دوسرے کے عیب کی پردہ پوشی بھی ہے۔اس پر مزید : وَعَاشِرُوهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ ( نساء 19) کی قید لگائی اور ساتھ ہی عورتوں پر مال خرچ کرنے کی فراخ دلی کی ترغیب دیااور کہا : وَلَا تَنسَوُا۟ ٱلْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ (بقرہ 237) ]ترجمہ: اور آپس کی فراخدلی کو فراموش نہ کرنا [ ان سب کے علاوہ انھیں حق مہر ادا کرنے کا حکم دیا ۔ ارشاد بارہ تعالیٰ : وَءَاتُوا۟ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَـٰتِهِنَّ نِحْلَةًۭ ۚ (النساء 4 ) ]ترجمہ: عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی ادا کرو [ ۔
ان سب کے باوجود ایک عورت اگر کسی مرد کی زوجیت میں رہنا پسند نہیں کرتی ہے تواسے خلع کا بھی حق دیا گیا ہے۔در اصل ایک روندی کچلی جانے والی کو ایک ہستی بنانے میں اللہ کی حکمت یہ ہے انھیں خواتین کے ذریعےدین، معاشرہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کی بقا کا دار و مدار ہے۔اور یہی وہ نقطۂ عروج ہے جس کے بعد ایک عورت کا مل ہوجاتی ہے۔ مگر اس کی ذمہ داری میں دو چند اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یعنی کہ وہ ماں کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ اس کی گود میں آنے والی نسلیں پرورش پاتی ہیں ۔ اس لئےشاعر کہتا ہے ؎
اے کہ تیری گود میں پلتی ہے تقدیرِ اُمم
اور پھر یہ زندگی اس کی اپنی زندگی نہیں رہتی۔ اب وہ ایک ننھے وجود کی بقا کے لئےاپنے آپ کو وقف کر دیتی ہے، راتوں کو جا
گ جاگ کر اولاد کو پالتی ہے۔اس کی نگہداشت صبر و سکون کے ساتھ بلامعاوضہ کرتی ہے۔اپنے جسم کا خون نچوڑ کر دودھ کی شکل میں ان کے جسم میں انڈیلتی ہے۔اور یہ ساری مزدوری بغیر معاوضہ کے انجام دیتی ہے۔اس لئے اس عظیم ہستی کی خدمت کا حضور پاک� نے بار بار حکم دیا ہے۔یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت قرار دی ہے۔اور دنیا میں بھی اس کے حسن سلوک کی پہلی حقدار قرار پائی۔قرآن بھی بار بار والدین کی اطاعت اور خدمت کی تلقین کرتے ہوئے وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا کی تکرار کی ہے۔
تو گویا یہ قرآن ہی کا اعزاز ہے کہ آج عورتیں عزت اور وقار سے جی رہی ہیں ۔ ان کی حیثیت کو نہ صرف قبول کیا گیا ہے بلکہ انھیںایک اہمیت کا حاصل بنا دیا گیا ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے
ؔاے ماؤں، بہنو، بیٹیو دنیا کی زینت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تم قوموں کی عزت تم سے ہے
تم گھر کی ہو شہزادیاں شہروں کی ہو آبادیاں
غمگین دلوں کی شادیاں دکھ سکھ میں راحت تم سے ہے
نیکی کی تم تصویر ہو عفت کی تدبیر ہو
ہو دین کی تم پاسباں یہ دین سلامت تم سے ہے
لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جتنا بڑاعہدہ ملا ہے تو ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی ہےجس کے لئے علم کی سخت ضرورت ہے کیونکہ علم ہی ہے جو جہالت کا عرفان کہلاتا ہےاور یہ بھی حق ہے کہ کوئی بھی قوم اپنی آدھی آبادی کو جاہل رکھ کر ترقی کی دشوار گذار راہوں پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔جس کے لئے محسنِ انسانیت نے جہاں مردوں کی تعلیم و تربیت کی وہیں عورتوں کے لئے بھی اس کا اہتمام کیا۔ حضور � کی ازواجِ آپ سے دین سیکھتیں اور پھر دوسری مومنہ عورتوں کو سکھاتیں۔ اس طرح باقائدگی سے دین کا علم خواتین تک پہنچ رہا تھا ۔اور پھر قرآن نے بھی ان کی مفصل تصویر جو مسلمان ہونےکی حیثیت سے مطلوب ہے سورہ احزاب میں پیش کی جو درج ذیل ہے:
مسلمات : وہ اللہ کی وفاداری کرنے والی
مومنات: وہ اللہ اور رسول پر ایمان لانے والی اور اپنے عمل سے قائم رہنے والی
قانتات: وہ اپنی زندگی کے سارے معاملات میں اللہ کی طرف جھکنے والی اور اس سے اپنی حاجت طلب کرنے والی اور اسی پر توکل کرنے والی
صادقات : وہ راست گو، صاف گو، کذب محفوظ ، دامن بچانے والی
صابرات : وہ مشکلات آنے پر ثابت قدم رہنے والی ، مصائب برداشت کرنے والی
خاشعات: وہ اپنےرب کے حضور پست (اللہ کے خوف سے) ہو کر رہنے والی
متصدقات: اپنے مال میں سے صدقہ کرنے والی نیز غریب مسکین عزیز و اقارب کا حق ادا کرنے والی
صائمات: وہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں روزہ رکھنے والی
حافظات: وہ اپنی عصمت و آبرو کی حفاظت کرنے والی
ذاکرات : وہ ہمیشہ اللہ کو یاد کرنے والی اور اسی سے لو لگانے والی
محصنات: وہ نیکو کار ،پرہیزگار پاک دامن اور معصوم ہوتی ہیں
پھر قرآن نےعملی طور پر تمام صفات کی حامل دو مثالی کردار بیان کیا:
فرعون کی بیوی آسیہ کا کردار 2. عیسیٰؑ کی والدہ محترمہ حضرت مریم کا
اسی طرح دو برے کرداروں کا ذکر اور ان کے انجام سے باخبر کرایا ، جن میں:
نوح ؑ کی بیوی 2. لوط ؑ کی بیوی۔ حالانکہ دونوں ایک دور کے بہترین انسان کی زوجہ تھیں۔اور ان کا بہترین کردار اخلاق و اعمال دیکھ رہی تھیں لیکن دلوں پر مہر کی وجہ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔چنانچہ عذاب کی مستحق قرار پائیں۔
قرآن کے اس بہترین انداز تربیت اور اس کی دی ہوئی کسوٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ضروری نہیں کہ موجودہ دور کی خواتین اپنا محاسبہ کریں اور پورااترنے کی کوشش کریں ۔ خواتین کےلئے دین کی نصرت و ہمایت کا ایک پہلو یہ ہےکہ وہ اپنے شوہروں اور اولادوں کو دین کے راستے پر چلنے میں معاون ثابت ہوں۔
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
خلاصہ یہ کہ آج اللہ کے دین کو ایسی ہی مطلوبہ خواتین کی ضرورت ہے ۔ پھر ایسی ہی خواتین دعوتِ انقلاب کی مصداق ثابت ہوں گی انشا اللہ۔
آؤ ذہنوں میں نئی فکرو نظر پیدا کریں
پھر شبِ تاریک سے نورِ سحر پیدا کریں
پھر شعور و آگہی سے ہم کریں روشن چراغ
پھر جہاں میں فکر و فن کی رہ گزر پیدا کریں
ازقلم: طیّبہ انور، میراروڈ
Bohat hi umda tehreer hai mashallah Allah musanifa ke I’m
mai izafa kre or dunia or akhirat ki kamiyabi naseeb kre ameen.