پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا ایک سفر
گزشتہ سے پیوستہ
ازقلم: آفتاب ندوی، دھنباد، جھارکھنڈ
عالیہ مدرسے میں
سرکاری مدرسوں کو عالیہ کہا جاتا ھے جبکہ پرائیوٹ مدرسوں کو قومی مدارس کہا جاتا ھے ، سرکاری مدارس کو عالیہ کہنے کی شائد یہ وجہ ھیکہ ھندوستان میں انگریزوں کے غلبہ وعمل دخل کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ ہی عربی سرکاری مدارس کا نقطۂ آغاز ھے ،درس نظامیہ کے بانی ملا نظام الدین سہالوی کے شاگرد ملا مجدالدین کے ذریعہ انگریزی حکومت نے 1780 میں اسے شروع کروایا ،کہا جاتا ھے کہ یہی ملا مجدالدین ہیں جو مولوی مدن کے نام سے مشہور تھے ،، ھزار شیخ جی دھا ڑی بڑھائیں سن کی سی ،،،
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی ،، اس مدرسہ سے بڑے بڑے علم دوست انگریز ، اور ھندوستان کے پایہ کے علماء پرنسپل ، استاد اور صدر مدرس کی حیثیت سے وابستہ رھے ، بہت سے نامی گرامی شمس العلماء اور خان بہادر کی خدمات اسے حاصل رہیں ، اکابر دیوبند کے استاد مولانا مملوک العلی کی بھی بحالی صدر مدرس کی حیثیت سے ھوئی تھی لیکن کسی وجہ سے وہ دلی چھوڑکر کلکتہ نہیں آسکے ، مولانا ظفر احمد عثمانی ، مولانا عبدا الحق حقانی ،مولانا ناظر حسن دیوبندی ، مولانا عبداللہ ٹونکی ، مفتی سید عمیم الاحسان ، مولانا شفیع فرنگی محلی ، مولانا امیر علی ملیح آبادی ،علامہ خلیل عرب یمنی ، مولانا عبدا الرحمن کاشغری ، مفتی سہول احمد بھاگلپوری ، مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی اور مولانا محبو ب الرحمن ازھری جیسے اساتذۂ علم وفن کے نام اس درس گاہ سے جڑے ھوئے ہیں ،،
1947میں صرف ملک ہی تقسیم نہیں ھوا ، زمین کے ساتھ ادارے ، لائبریریاں ، میز کرسیاں اور فنکار بھی تقیسم ھو گئے ،مدرسہ عالیہ اس طرح تقسیم ھوا کہ انگلو پرشین کا حصہ کلکتہ ہی میں رہا اور قدیم علوم کا شعبہ ڈھاکہ منتقل کردیا گیا ،اسکی کتابیں ،الماریاں اور دوسرے سامان ڈھاکہ لے جائے گئے ، اساتذہ کو اختیار دیا گیا کہ جو جانا چاہیں جائیں اور جو رہنا چاہیں یہیں رہیں ، دو کے علاوہ شعبہ کے سارے اساتذہ اپنے شعبہ کو لے کر ڈھاکہ منتقل ھوگئے ،،
پونے دوسو سال کے بعد ملک کی طرح عالیہ بھی دو لخت ھوگیا ، ہندوستان کا مدرسہ عالیہ 2008میں عالیہ یونیورسٹی بن گیا ، ، ابھی کلکتہ میں مختلف جگہوں پر اسکے چارکیمپس ہیں ،
ادھر ڈھاکہ کا یہی مہاجر سرکاری مدرسہ عالیہ ھے جسکی وجہ سے بنگلہ دیش کے تمام سرکاری مدرسوں کو عالیہ اور عام مسلمانوں کی مدد سے چلنے والے مدرسوں کو قومی مدارس کہا جاتا ھے ، ان جامعات ومدارس کے کئ وفاق اور تنظیمیں ہیں سب سے بڑے وفاق سے انیس ھزار دینی مدرسے جڑے ھوئے ہیں ، ا سکے موجودہ سکریٹری جنرل مولانا عبید الرحمان نسیم خاں ندوی ہیں ، بنگلہ دیش کاسب سے بڑامدرسہ دارالعلوم معین الاسلام ھاٹھزاری اور دوسرے نمبر پر جامعہ اسلامیہ پٹیہ ھے ، بنگلہ دیش میں انکی حیثیت وہی ھے جو دیوبند اور مظاہر کی ھند ستان میں ھے ،ھاٹھزاری میں نو ھزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں ،جبکہ پٹیہ میں طلبہ کی موجودہ تعداد پانچ ھزار ھے ،،1938 میں مولانا عزیز الحق صاحب نے پٹیہ مدرسہ کو مدرسہ ضمیریہ قاسم العلوم کے نام سے قائم کیا ، شروع میں اسکا یہی نام تھا ، اب اسے جامعہ اسلامیہ پٹیہ کے نام سے جانا اور پھچانا جاتا ھے ،عربی میں بلاغ الشرق کے نام سے اور بنگلہ میں توحیدکے نام سے مدرسہ سے دو پرچے نکلتے ہیں ، تعلیم و تعلم کے علاوہ ادارہ میں آزاد مدارس کا سب سے بڑا وفاق ھے ، قرآن کی تعلیم کیلئے سرگرم مدارس کی بھی مدرسہ کی نگرانی میں ایک شعبہ ھے ، مکاتب کا ایک مستقل شعبہ ھے جس کے ذریعہ مکاتب کے قیام اور بنیادی تعلیم کے فروغ کیلئے کوشش کی جاتی ھے ، سیلاب اور وباؤں میں بھی پٹیہ استطاعت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ھے ، ان اداروں میں فکر اورنصاب ونظام تعلیم بنیادی طور پر وہی ھے جو دیوبند اور مظاھر وغیرہ کا ھے ،
ڈاکٹر ابو رضاء ندوی اور دارالمعارف چاٹگام کے بانی ناظم مولانا سلطان ذوق صاحب اسی مدرسہ کے تعلیم یافتہ ہیں ، ذوق صاحب یہاں ایک مدت تک تدریسی خدمات بہی انجام دیے چکے ہیں ، اس ادارہ میں اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ میری حاضری ھوچکی ھے ،
چائے کے بعد ھملوگ مسجد لے جائے گئے ، جلسہ میں طلبہ کو دیکھ کر اندازہ ھواکہ طلبہ کی جو تعداد بتائی گئی ھے وہ درست ھے ، طلبہ ہشاش بشاش اور چاق و چوبند نظر آئے ، انتھائی سلیقہ سے تمام بچے خاموش بیٹھے ھوئے تھے ، لباس صاف ستھرے تھے ، ذہانت اور طلب چہرہ سے ظاھر ھوتی تھی ، رسم خوش آمدید کے بعد ڈاکٹر ابو رضا ء ندوی ، مولانا عبید الرحمان نسیم ندوی اور ڈاکٹر اکرم صاحب نے طلبہ کو خطاب کیا ، مجھ سے بھی کچھ کہنے کیلئے کہا گیا ، میں نے عرض کیا کہ برصغیر میں مغلیہ حکومت کے زوال اور 1857 کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کو اسلام پر باقی رکھنے ، دین و شریعت کو تحریف سے بچانے اور مسلم سماج کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے مقصد سے دارالعلوم دیوبند ، مظاھر علوم ، شاھی مرادآباد ، باقیات ویلور ، ندوۃ العلماء ، نظامیہ حیدرآباد ، امدادیہ دربھنگہ جیسے سیکڑوں ادارے قائم ھوئے ، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ھے ، آپکا یہ ادارہ بھی اسی سلسلہ کی ایک زریں کڑی ھے ، ماشاءاللہ اس ادارہ میں بزرگ اور ھر فن کے اہل اورقابل اساتذہ موجود ہیں ، ان سے آپ مستقبل کو بنانے اور سنوارنے والی نصیحتیں سنتے رہتے ھونگے ، آپ سے میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ھوں ، وہ یہ کہ کوشش کیجئے کہ آپ کی زبان اور آپکی تحریر ایسی ھو کہ لوگ آپکی بات سنیں ، آپکی تحریروں کا انتظار ھو ، میں نے سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ھوئے کہا ، قرآن کریم تو زبان وبیان کا ایسا لازوال شاہکار ھے کہ آجتک اسکے ایک جملہ کا بھی دنیا سے جواب نہ
یں بن پڑا ،
حضور صلی االلہ علیہ وسلم افصح العرب تھے ، حدیث کو دیکھئے فصاحت و بلاغت بلائیں لیتی ہیں ،
خلفاء راشدین ، مجددین ومجتہدین کے خطبات و ملفوظات کا مطالعہ کیجئے ، شیخ عبدا القادر جیلانی کی کتابیں دیکھئے ، ہندوستان میں مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، مجدد سرھندی ، شیخ شرف الد ین یحی منیری ، اسی طرح بعد کے علماء کی تحریروں کو دیکھئے ، وہی لوگ زندہ ہیں اور انہی لوگوں کا فیض زیادہ پھیلا اور آج بھی فیض جاری ھے جن لوگوں نے قلم کو دعوت وتبلیغ کا ہتھیار بنایا ، یا مردم سازی کا کام کیا ،
میں نے عرض کیا آپ ادب کا خوب ۔طالعہ کیجئے ، مقامی زبانوں میں بھی کمال ومہارت ضروری ھے،،اسکے بعد جامعہ ہی میں پرتکلف عشائیہ کا نظم تھا ، متنوع قسم کے کھانوں گوشت ، مچھلی ، پلاؤ وغیرہ سے دستر خوان تنگ دامنی کی شکایت کر رھا تھا ، عام طور پر یہاں دسترخوان پر روٹی نظر نہیں آتی ، میری یا کسی کی زبان سے نکل گیا کہ روٹی ھے ؟تو بریڈ لاکر رکھا گیا ، کھانے کے بعد تقریبا نصف شب کو قیام گاہ ھوٹل ریڈسن بلیو واپسی ھوئی