وہی پلوامہ شکست کی وجہ نہ بن جائے

ازقلم: مشرف شمسی

بات 2019 نومبر مہینے کی ہے۔میں ممبئی سے اپنے گاؤں کھگریا،بہار جا رہا تھا ۔پٹنہ تو صبح ہی پہنچ گئے تھے لیکن پٹنہ میں کچھ کام ہونے کی وجہ سے دوپہر سوا دو بجے کی کٹیہار انٹر سٹی پکڑنے کا فیصلہ کیا۔تقریباً ڈیڑھ بجے پٹنہ اسٹیشن پر پہنچ چکا تھا ۔ٹرین کے انتظار میں جس پلیٹ فارم پر بیٹھا ہوا تھا میرے بغل میں ایک فوجی بھی پہلے سے اسی ٹرین کو پکڑنے کے لئے موجود تھا۔حالانکہ وہ فوجی کپڑے میں نہیں تھا لیکن اس کے لک سے اور بال کی کٹائی سے وہ صاف فوجی نظر آ رہا تھا ۔میں نے اس فوجی سے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تھانہ بہپور جو ہمارے اسٹیشن کھگریا سے پچاس کیلو میٹر کی دوری پر ہے ۔پھر میں نے کہا کہاں سے آ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ کشمیر سے۔اچانک میرے اندر کا صحافت جاگ گئی ۔کیونکہ 5 اگست 2019 کو جموں کشمیر سے دفعہ 370 کو ختم کر دیا گیا تھا ۔میں نے جموں و کشمیر کے حالات پوچھے تو اس نے کہا کہ کرفیو لگا ہوا ہے ۔انٹرنیٹ بند ہیں ۔جگدیش نام کا وہ فوجی بات چیت میں کہا کہ کشمیر کے لوگوں کے لئے مشکل حالات ہیں لیکن ہم فوجیوں کے لئے اچھا ہے ۔آپ فوجیوں کے لئے اچھا کیوں؟تو اُسنے کہا کہ اب فوجیوں پر حملے نہیں ہو رہے ہیں۔اس نے آگے کہا کہ جموں و کشمیر کو فوجیوں سے بھر دیا گیا ہے ۔جگدیش نے کہا کہ بہت مشکل سے چھٹی ملی ہے ۔بات چیت میں اس نے یہ بھی کہا کہ پلوامہ کے علاقے میں بھی ڈیوٹی کر چکا ہوں۔تب تک وہ بھی سمجھ چکا تھا کہ میں ایک صحافی ہوں ۔جیسے ہی اس نے کہا کہ پلوامہ کے علاقے میں ڈیوٹی کر چکا ہوں۔تو میں پوچھ بیٹھا کہ جہاں پر سی آر پی ایف کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھاا اس جگہ کو جانتے ہیں ۔تو اس نے کہا کہ ہاں ۔اسی درمیان ہم لوگ ٹرین میں بیٹھ چکے تھے اور ٹرین اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو چکی تھی۔هم لوگ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور پٹنہ سے میری ساڑھے تئیں گھنٹے کی تھی ۔مجھے پلوامہ کی جانکاری حاصل کرنی تھی۔فوجی جگدیش نے خود کہا کہ جس بڑے پیمانے پر آر ڈی ایکس کا استعمال ہوا وہ بنا کسی اندر کے آدمی کے ملے ہوئے ممکن نہیں ہو سکتا ہے ۔اس نے کہا کہ اتنی بڑی مقدار میں آر ڈی ایکس پاکستان سے ہی آ سکتا تھا ۔ پاکستانی سرحد اور وہ حادثاتی جگہ جہاں سی آر پی ایف کے قافلے میں دھماکہ ہوا اسکی دوری سو کیلو میٹر سے زیادہ کی ہے۔آر ڈی ایکس لے کر اس قافلے تک پہونچنا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ اس علاقے میں فوجی اور نیم فوجی دستے کی اتنی بڑی تعیناتی رہتی ہے کہ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہے۔جگدیش نے کہا کہ صرف میں نہیں بلکہ ہر ایک فوجی جو اس علاقے کو جانتے ہیں کهہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں آر ڈی ایکس پاکستانی سرحد سے اتنی دور آنا نا ممکن ہے۔میرے ذہن میں تب سے یہ سوال کوندھ رہا تھا۔کچھ مہینے پہلے ایک پروگرام میں ممبئی سے لگے میرا بھائندر کے آر ایس ایس آفس کیشو شرسٹھی میں ایک اسکولی پروگرام میں جانا ہوا ۔اس پروگرام میں خصوصی مہمان بن کر ایک ریٹائرڈ میجر آئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے بھی اپنی فوجی زندگی پر بات کرتے ہوئے پلوامہ کا ذکر کیا۔اُنہوں نے پلوامہ میں ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے ایک بہت پہلے کی مڈھ بھیڑ کا واقعہ سنایا ۔ جب اُنکی بات ختم ہوئی تو میں نے فوراً اس میجر سے سوال کیا کہ سر آپ پلوامہ کو جانتے ہیں تو اسی پلوامہ میں سی آر پی ایف کے جوانوں کی شہادت ہوئی اس سے بھی واقف ہونگے۔تو اس نے کہا ہاں۔ سر پاکستانی سرحد سے اس جگہ جہاں سی آر پی ایف قافلے میں دھماکہ ہوا آر ڈی ایکس اتنی بڑی مقدار میں اس جگہ کیسے پہنچا ۔وہ مجھے دیکھے اور مسکرائے اور کچھ بھی جواب دینے سے انکار کر دیا۔میں نے انکا فون نمبر لیا اور پندرہ دنوں بعد وہ پھر ممبئی آنے والے تھے مجھ سے بات کرنے کا وعدہ کیا لیکن اسکے بعد اس میجر نے میرا فون نہیں اٹھایا۔
2019 میں جگدیش نامی فوجی شاید اُسنے اپنا نام غلط بتایا ہو جو بات مجھ سے کہا تھا وہی بات جموں و کشمیر کے اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک اب کہہ رہے ہیں کہ آر ڈی ایکس سے بھری کار اس علاقے میں بنا چیکنگ کے کیسے گھوم رہی تھی جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا ۔انٹلی جنس آؤٹ پٹ کے باوجود ہیلی کاپٹر کا انتظام نہیں کیا جا نا شک کو بہت گہرا کرتا ہے۔ساتھ ہی اس پورے معاملے کی اب تک جانچ نہیں کیا جانا معاملے کو اور بھی پیچیدہ بناتا ہے۔ٹھیک لوک سبھا چناؤ سے قبل پلوامہ ایک جن بن کر سامنے آیا ہے وہ جن اتنی جلدی بوتل میں بند نہیں ہونے والا ہے۔مجھے تو یہ بھی لگ رہا ہے کہ جس پلوامہ اور اس کے بعد بالا کوٹ حملے کی وجہ سے مودی جی دوبارہ بھاری اکثریت سے جیت کر حکومت میں آئے تھے ۔وہی پلوامہ 2024 میں اُنکی شکست کی وجہ نہ بن جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے