ہم حضرت انسان سہولت پسند ہیں جس کام میں ہم آسانی اور سہولت دیکھتے ہیں ان کاموں کو خوش و خرم کرتے ہیں، ان کاموں کے کرنے کے لیے کہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ہے بلکہ اشارہ ملتے ہی ان کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔
وہیں جہاں کٹھنائی ہو ، سختی ہو ،مشقت ہو تو پھر ایسے کاموں سے کوسوں دور بھاگتے ہیں کہ کہیں ہتھے نا چڑھ جائیں اور پھر مشقت والا کام کرنا پڑے اور اپنا انرجی ختم کرنا پڑے۔
ابھی ماہ محرم الحرام میں یکم محرم الحرام سے لے کر دس ،گیارہ بلکہ بارہ ،تیرہ محرم الحرام تک جو بدعات وخرافات کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں وہ سب کے سب سہل اور آسان کام ہے، مثلاً ڈھول تاشے بجانا، سیٹی بجانا، راتوں کو جاگنا ادھم مچانا،ڈی جے بجانا اور نمازوں کو چھوڑنا، تعزیہ بنانا،میلہ لگانا وغیرہ وغیرہ
یہ سب کام بدعات وخرافات میں سے ہیں اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے،لیکن ہمارے بڑے بوڑھے بچے جوان مرد و زن سبھی اسلام سمجھ کر ان خرافات میں ملوث ہیں، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اسلام سمجھنے اور ان خرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
ماہ محرم الحرام جو ان دنوں ہم پر سایہ فگن اس میں کرنے کا ایک بہت ہی اہم کام ہے لیکن اس میں سختی ہے کٹھنائی ہے دشواری ہے اس لیے ہم مسلمان اس کو بھلائے ہی نہیں ہیں بلکہ نسیا منسیا کر دئیے ہیں۔
اس ماہ میں اہم کام یہ ہے کہ نو ، دس، یا دس، گیارہ تاریخ کو روزہ رکھنا ہے، صحیحین کی روایت ہے:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو یوم عاشورہ (۱۰ محرم) کا روزہ رکھتے دیکھا ۔ آپ نے ان سے دریافت کیا (تمہاری مذہبی روایات میں) یہ کیا خاص دن ہے (اور اس کی کیا خصوصیت اور اہمیت ہے) کہ تم اس کا روزہ رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ : ہمارے ہاں یہ بڑی عظمت والا دن ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق آب کیا تھا تو موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکر میں اس دن کا روزہ رکھا تھا اس لیے ہم بھی (ان کی پیروی میں) اس دن روزہ رکھتے ہیں …. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ کے پیغمبر موسیٰؑ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا اور امت کو بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔ (صحیح بخاری 2004/و صحیح مسلم)
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ دس محرم الحرام کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے صحیحین کی روایت ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی فضیلت والے دن کے روزے کا بہت زیادہ اہتمام اور فکر کرتے ہوں ، سوائے اس دن یوم عاشورہ کے اور سوائے اس ماہ مبارک رمضان کے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
حضرت مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہی سمجھا کہ نفلی روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یوم عاشورہ کے روزے کا کرتے تھے اتنا کسی دوسرے نفلی روزے کا نہیں کرتے تھے ۔
ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہ دس محرم الحرام کے دن یہود و نصارٰی بھی روزہ رکھتے ہیں کہیں مشابہ تو نہیں ہوگا آپ نے فرمایا کہ آئندہ دس کے ساتھ نویں کو بھی رکھیں گے، یہ صحیح مسلم کی روایت ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ ! اس دن کو تو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور یہ گویا ان کا قومی و مذہبی شعار ہے اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے کے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے ، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ان شاء اللہ ! جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے …. عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا ماہ محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات واقع ہو گی ۔ (صحیح مسلم)
اسی حدیث شریف کی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ محرم الحرام میں نویں دسویں ،یا دسویں گیارہویں دو دنوں کا روزہ رکھنا چاہیے تاکہ یہود و نصارٰی کی مخالفت بھی ہو اور نبی کریم ﷺ کے فرمان پر عمل بھی ہو، اس لیے ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ محرم الحرام کی بدعات وخرافات کو چھوڑ کر اصل چیز پر عمل کریں اور وہ نو دس یا دس گیارہ تاریخ کو روزہ رکھیں، اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو صحیح سمھجنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
ازقلم: ابومعاویہ محمد معین الدین
ادارہ تسلیم ورضا سمری دربھنگہ بہار