امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ شیعوں کی ہمیشہ سے عادت ہے کہ وہ انبیاء سے نسبی تعلق رکھنے والے(اصول و فروع) یعنی ان کے والدین اور ان کی اولاد کی تو بڑی تعظیم کرتے ہیں، لیکن ان کی شریک زندگی اور رفیقۂ حیات بیویوں کی شان میں گستاخی اور طعن و تشنیع کرتے ہیں، یہ سب تعصب و خواہشِ نفسانی کا کرشمہ ہے، چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حسنؓ و حسین ؓ کی تو تعظیم کرتے ہیں،اور حضرت عائشہ ام المومنینؓ کی توہین اور ان پر اعتراض کرتے ہیں۔ایک دوسری بو العجبی یہ ہے کہ محمد بن ابی بکر کی تعظیم میں تو بڑا غلو اور مبالغہ کرتے ہیں،اور ان کے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں بے ادبی،امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:۔روافض محمد بن ابی بکر کی تعظیم میں بڑے غلو سے کام لیتے ہیں،اور یہ ان کی قدیم عادت ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے خلاف شورش میں حصہ لیا تھا،ان کی مدح کرتے ہیں،اسی طرح سے جنھوں نے حضرت علیؓ کی معیت میں جنگ کی تھی،ان کی بڑی تعریف کرتے ہیں، یہاں تک کہ محمد بن ابی بکرؓ کو ان کے والد حضرت ابو بکرؓ پر فضیلت دیتے ہیں،طرفہ تماشا یہ ہےکہ جو شخص پوری امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں افضل ہے،اس پر تو لعنت کرتے ہیں، اور جس کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہے، نہ سبقت نہ فضیلت،اس کی مدح کرتے ہیں،اور انساب کی تعظیم میں ان سے عجیب قسم کا تضاد و تناقض ظاہر ہوتاہے۔۔(اقتباس:دعوت و عزیمت ٢/٢٩١)
ازقلم: احمد حسین مظاہریؔ پرولیا