واقعہ کربلا کا درس قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہے

پوری دنیا اسلامی نئے سال کی مبارکباد کی فضا سے گونج اٹھتی ہیں۔ ایک طرف ہم سب نئے سال کی خوشیوں کا اظہار کرتے ہوئے اپنی زندہ دلی کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو دوسری طرف محرم میں ہوئی اسلام کی بقاء و پاسداری کے لئے جنگ جیسے عالم دنیا ” واقعہ کربلا” سے یاد کرتے ہیں۔ جس کی پیشن گوئی محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی سے کردی تھی۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حسن رضوی اللہ تعالیٰ عنہ امت کے دو بڑے گروہوں میں صلاح کروانگے۔ اس سے امت میں اتحاد پیدا ہوگا۔ اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کی بقا کے لئے شہید ہوگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئیاں سچ ثابت ہوئی۔ محرم کی دسویں تاریخ یعنی عاشورہ کے دن واقعہ کربلا پیش آیا۔ جس کی تفصیل کتب میں معتبر حوالوں کے ساتھ موجود ہیں۔ کربلا کے واقعہ کو مفصل و مدلل طریقے سے بیان کیا جاتا ہے۔ امت کے نواجوانون کو دین حق کے لئے قربانیاں پیش کرنے کی تلقین کی جاتی ہیں۔ اس دن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد کیا جاتا ہے۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ کون کیسے یاد کرتا ہیں۔ لیکن میں ایک الگ بات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ کہ ہم آج بھی کربلا کے واقعے کو روٹیشن کی طرح صرف چند دنوں تک یاد کرتے ہیں۔ اور پھر اپنے ڈیلی کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ہمیں ان واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں قوم و ملت کے مسائلوں کے حل کرنے کے لئے ہمارے اصلاف کی طرح عملی لباس سے ملبوس ہونا چاہیے۔ ہمارے اصلاف نے کونسی حکمتِ عملی کو اپنایا تھا؟ کن اعمال پر عمل کرنے پر انھیں دونوں جہان کی کامیابی حاصل ہوئی تھی؟ انکی قربانیاں کس لئے تھی؟ اسلام کی بقاء و پاسداری کے لئے انھوں نے کس راہ پر زندگی گزاری ہے؟ ہمیں ان راہوں پر استقامت کےساتھ عمل آور ہونا چاہیے۔ تب ہی،اصل میں یہ یادیں منانا کامیاب ہوگا۔ نوجوانوں کو اسلام کے اس مثالی کارنامے کو اپنے دل و دماغ میں پیوست کرتے ہوئے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے۔ اسلام نے جب بھی جس چیز کی قربانی مانگی ہمیں ہر وقت اسے قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اسکی ذندہ مثال یہ موثر و کامیاب کربلا کا واقعہ ہے۔ آج ہم صرف نام لیتے ہیں۔ مگر انکے احکامات، انکی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ تو کیوں کر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں؟ آج ہم گفتگو،بحث اور بات چیت تو پوری دنیا میں مسلمانوں کے اتحاد کی کرتے ہیں۔ لیکن ہم ہی اپنے گھروں میں،گلیوں میں، قبیلوں میں، گاؤں میں آپس میں ہی لڑتے جھگڑتے ہیں۔ جب ہم اپنے گھروں میں متحد نہیں ہو سکتے تو دنیا کیسے متحد ہو سکتی ہیں؟ یہ ایک بڑا مفکرانہ مقام ہیں۔ چاہے سیاست ہو، چاہے سماجی کام ہو ہم اپنے ہی بھائی کی رہنمائی قبول نہیں کرتے ہیں۔ ہم سچے دل سے اپنے ہی لوگوں کی قیادت قبول نہیں کرتے ہیں۔ ہم اپنوں میں کسی کی قیادت پر راضی نہیں۔ ہم دوسری قوموں کے ما تحت کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ جب کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں بتایا کہ ہمیں اپنا رہنما کیسا منتخب کرنا ہیں۔ آپسی سازشوں سے کیسے بچنا چاہئے۔ لیکن ہم دنیا میں وقتی مفاد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ اور اصل تعلمیات کو فراموش کرتے ہیں۔ اور پھر زندگی کے مسائل حل نہ ہونے کا شکوہ باقی رہتا ہے۔ کربلا کا حقیقی واقعہ ہماری زندگی کی ہر طرح سے رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ بس دیکھنے کی نظر چاہیے اور عمل کرنے کی نیت و جذبہ۔ بغیر ارادے کے عمل کی توفیق نہیں ملتی۔ کربلا میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر وہ مصیبت بخوشی قبول کی جیسے قیامت تک یاد کیا جاتا رہے گا۔ ہمیں صرف یاد کرنے سے کامیابی کا حصول نہیں ہو سکتا بلکہ ہمیں اس سے سبق سیکھ کر آج کی دور زندگی میں اتارنا ہے۔ دین پر عمل ، جنگ کے میدان میں بھی نماز و صبر کی پابندی، حقوق العباد کا خیال رکھا۔ اور خندہ پیشانی کے ساتھ حسن سلوک کا بہترین نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ جو آج ہم تمام کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ ہمیں آج اسے اپنانے کے اشد ضرورت ہیں۔ وہ شخص سب سے بہتر ہے جس کے اخلاق اچھے ہو۔ اخلاقی کی گراوٹ کی بدولت ہی ہم آج پریشان و مشکلات سے جنگ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مسائلوں کو حل کرنا چاہتے ہو تو ہمیں خود احتسابی کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ اور غلطیوں، خامیوں کو نشان دہی کرتے ہوئے اسے درست کرنا ہوگا۔ صحیح علم و عمل سے زندگی کامیاب ہوتی ہے۔ کربلا کا واقعہ ہمیں یہی درس دیتا ہے۔ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے تعلیمات پر ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر ، آپ کے اخلاقِ کریمی پر عمل کرے۔ ہر وقت خدا کی رضامندی کی فکر کرے۔ اور ہماری ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رہے۔ جب ہم اچھے اخلاق کا پیکر ہوگے۔ اچھے اخلاق پر عمل بھی ایک بڑی قربانی ہے۔ نفس کے ساتھ جنگ ہے۔ اسے اپنا ئے تو اللہ عزوجل کی مدد شامل حال ہوگی۔ اور دنیا و آخرت کی کامیابی ہمیں نصیب ہوگی۔ میدان کربلا میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں پریکٹیکل نمونہ دیتے ہوئے درس دیا ہے کہ ہم دین پر قائم رہے اپنے عقائد کی حفاظت کرے۔ اور ہر حال میں دین کو سر فہرست رکھے۔ اسلام کو زندہ و بلند رکھے۔ کسی غیر مہذب کے ساتھ دین کا سمجھوتہ نہ کریں۔
اسی کو علامہ اقبال یوں بیان کرتے ہے۔ کہ

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام ذندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ازقلم: حسین قریشی
بلڈانہ مہاراشٹر

One thought on “واقعہ کربلا کا درس قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے