دنیا کے مختلف ملکوں میں نسل کشی کے واقعات کامشاہدہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ‘جینو سائڈ واچ’ کے چیئرمین گریگوری اسٹینٹن نے گزشتہ سالوں میں کئی بار اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ہندستان میں مسلمان نسل کشی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ نسل کشی کا مطلب ہوتا ہے’ قتل عام’ سے زیادہ بھیانک خوں ریزی۔ آزادی کے بعد سے مسلمانوں نے بے شمار قتل عام دیکھے ہیں جن میں ہندو عوام نے اور پولس فورسز کے ہندو جوانوں نے مسلمانوں کو بڑی تعداد میں مارا ہے، لوٹا ہے اور جلایا ہے۔ عورتوں کی آبرو ریزی کی ہے، معصوم بچوں تک کو آگ میں ڈال دیا ہے اور چھریوں سے گودا ہے۔ لیکن نسل کشی کا مطلب ہے اس سے زیادہ بھیانک خوں ریزی، زیادہ بڑے پیمانے پر، ملک کے مختلف حصوں میں ایک ساتھ پولس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر یلغار جس میں سیکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو ایک ساتھ مار ڈالا جائے اور بہت بڑی آبادی ملک کے اندر و باہر پناہ گزیں کیمپوں میں محصور ہو جائے ۔
جینو سائڈ یا نسل کشی کی مثالیں دنیا میں متعدد ہیں جن میں بوسنیا اور روانڈا کو بطور تذکرہ لیا جاسکتا ہے ۔ بوسنیا میں 1995 میں ریاست سربیا کے حکمراں کی قیادت میں سربیائی قوم کے لوگوں نے جولائی مہینے کے صرف تین دن کے اندر آٹھ ہزار سے زیادہ بوسنیا ئی مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا ، جب کہ تیس ہزار لوگ جان بچاکر سربیا سے بھاگے تھے۔ اور روانڈا میں 1994 میں صرف تین مہینے کے اندر آٹھ سے دس لاکھ لوگ مارے گئے تھے اور قریب پانچ لاکھ عورتوں کے ساتھ جنسی جرائم کئے گئے تھے۔ اور یہ زیادہ تر ایک ہی نسل کے لوگ تھے۔
جینو سائڈ واچ کے صدر نے نسل کشی کے ان واقعات کا سائنسی تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ نسل کشی کا عمومی بلوہ شروع ہونے سے پہلے لمبے عرصے تک ایک ماحول بنتا ہے اور بتدریج کچھ خاص طرح کے واقعات کا سلسلہ لگاتار بڑھتا رہتا ہے ۔ اس پورے عرصے کو انہوں نے دس ادوار یا مرحلوں میں بانٹا ہے ۔ ہندستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے تقریباً دو سال پہلے یہ کہا تھا کہ ہندستان کے خطرناک حالات آٹھویں اسٹیج پر ہیں ۔ اس لحاظ سے آج ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ جولائی 2023 کے حالات شاید آخری مرحلے کے ہیں اور ہم مسلمانان ہند تاریخ کے سب سے بڑے خطرے میں گھر چکے ہیں ۔
جے پور سے ممبئی جانے والی ٹرین میں جس دن حملہ ہوا ہے وہ جولائی کی 31 تاریخ تھی۔ لیکن جولائی کے پورے مہینے میں کوئی دن ایسا نہ گیا ہوگا جس دن مسلمانوں پر کہیں کوئی حملہ نہ ہوا ہو۔ ایک سرسری تفصیل ملاحظہ ہو۔۔۔۔
1 جولائی کو بھونیشور (اڑیسہ) میں ہندوؤں کی بھیڑ نے کچھ مسلم نوجوانوں کو پکڑا اور رسیوں سے باندھ کر مارا۔ 5 جولائی کو پونا میں ہندوؤں نے ایک سوشل میڈیا اسٹیٹس کو بہانہ بنا کر مسلمانوں پر حملہ کیا۔ 6 جولائی کو ایک ہندوتوادی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالی جس میں وہ ایک مسلمان عورت سے جے شری رام کانعرہ لگانے کو کہہ رہا تھا۔ 8 جولائی کو مدھیہ پردیش کے کسی مقام پر ہندو غنڈوں نے ایک مسلم لڑکے کو اغوا کرکے گاڑی میں بٹھایا، تشدد کیا اور اپنا جوتا و تھوک چاٹنے پر مجبور کیا ۔ 9 جولائی کو آگرہ میں 18 سالہ مسلم لڑکی پر دست درازی کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ 13 جولائی کو شولاپور میں دو مسلمانوں کو پیڑ سے باندھ کر مارا گیا اور جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا۔ 19 جولائی کو جھار کھنڈ کے ایک مقام پر اشفاق نامی مسلمان کو پولس حراست میں مار دیا گیا۔ 21 جولائی کو گجرات کے پاٹن میں سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالنے کے الزام میں پولس نے کچھ مسلم نوجوانوں کو پکڑا، ان کے ہاتھ پیچھے باندھے اور مارتے ہوئے پریڈ کراکر لے گئے۔ 21 جولائی کو ہی راجستھان کے کوٹہ میں ایک کوچنگ کے اندر ہندو لڑکوں نے ایک حجاب پوش مسلم لڑکی کو بری طرح ہراساں کیا۔ 22 جولائی کو گجرات کے بناس کانتھا میں ہندو غنڈوں نے مویشیوں کے ایک تاجر پر حملہ کیا اور مار پیٹ کر زخمی کردیا۔ 22 جولائی کو ہی مظفر نگر میں ہندو غنڈوں نے مسلم ہوٹلوں اور ڈھابوں کو زبردستی بند کرایا۔ 23 جولائی کو راجستھان کے الور میں سیقل خان کی پولس حراست میں موت ہو گئی۔ 23 جولائی کو ہی دربھنگہ میں 13سال کے فرحان کو پولس نے پکڑکر بند کردیا۔ 25 جولائی کو آسام کے موری گاؤں میں رات کو گھر واپس آتے ہوئے چھ مسلمانوں کو ہندوؤں نے پکڑ لیا اور گھیر کر مارا، جس میں ایک نوجوان موقع پر ہی فوت ہو گیا۔ 28 جولائی کو دہلی کے ناہر گڑھ میں گوشت فروشوں کا گوشت ہندو غنڈوں نے ضبط کیا اور کتوں کو کھلا دیا۔ 28 جولائی کو ہی یوپی کے رام نگر میں پانچ سال کی مسلم بجی کو ایک ہندو لڑکے نے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔ 29 جولائی کو ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ہندو غنڈوں کو ایک باحجاب لڑکی کی آبرو ریزی کرتے ہوئے دکھایا گیا، اور دوسرے ہندوؤں کو ایسا کرنے کی ترغیب دی گئی۔ 30 جولائی کو یو پی کے کاس گنج میں کچھ افراد نے مل کر ایک مسلم لڑکے کو پکڑا اور اس کے منھ میں پیشاب کیا۔ 30 جولائی کو ہی ہاپوڑ یوپی میں ایک مدرسے کے کچھ طلباء کو جو مچھلی پکڑ کر لائے تھے ہندو غنڈوں نے پکڑ لیا اور مارا پیٹا۔ 30 جو لائی کو ہی مدھیہ پردیش کے اجین میں ڈاکٹر زریں خاں کی اسکوٹی روکی گئی، ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی اور کپڑے پھاڑ دئے گئے۔ جولائی کے آخری دن نہ صرف ممبئی کے پاس ایک ٹرین میں ایک سرکاری قاتل نے تین معصوم مسلمانوں کو قتل کیا بلکہ اسی دن میوات میں اور کچھ دیگر جگہوں پر فسادات برپا کئے گئے ۔ نوح قصبے میں مسلمانوں کی دوکانوں اور مکانوں کو جلایا گیا اور گڑگاوں شہر کی ایک مسجد پر حملہ کرکے مسجد کے امام حافظ سعید کو مار ڈالا گیا۔ جولائی کے یہ واقعات وہ ہیں جو سوشل میڈیا پر سرسری طریقہ سے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ ریکارڈ میں نہ آنے والے واقعات کو ان پر ہی قیاس کرکے صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف کئی سال سے لگاتار جار ی تشدد کی اس پوری صورت حال کو اگر کوئی شخص الگ الگ واقعات سمجھتا ہے تو وہ کوئی بے شعور ہی ہو سکتا ہے ورنہ معمولی شعور رکھنا والا ایک عام آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک مرکزی کمان کے تحت ہونے والے حملے ہیں اور مسلم دشمن حکمرانوں کی تائید و منظوری سے ہو رہے ہیں ۔ لیکن اس تمام ہولناک منظر نامے کے باوجود بڑی مسلم تنظیموں، بڑے مدرسوں، بڑی درگاہوں اور خانقاہوں کے ذمہ داروں میں کوئی خاص بے چینی، کسی طرح کا کوئی لانحہ عمل بنانے کی فکر اور کسی اجتماعی مشورے یا منصوبہ بندی کی کوئی دوڑ دھوپ نہیں دکھائی دے رہی ہے۔
حقیقت میں تو یہ وقت تمام مسلمانوں کے لئے سڑکوں پر نکل آنے، چیخنے چلانے، دنیا کے انصاف پسندوں کو متوجہ کرنے اور ظالم حکمرانوں کو جھنجھوڑ نے کا وقت ہے ۔ یعنی اجتماعی طور پر منظم، پر امن اور موثر ملک گیر احتجاجوں کی ضرورت ہے ۔ اگر یہ احتجاج ہوں گے تو دنیا سنے گی اور دیکھے گی، ظالم حکمراں بوکھلائیں گے اور گھبرائیں گے ، ظالم حکمرانوں کے سیاسی مخالفین اپنی مخالفت کی آواز اور تیز کریں گے ، عدلیہ اور نظام انصاف میں یقین رکھنے والے لوگ بھی چونکیں گے اور ظلم کے خلاف انصاف پسندوں کی آوازیں کچھ اور بلند ہوں گی۔ حکومت پر بین الاقوامی دباؤ بھی یقینا پڑے گا ۔ کاروباری دنیا بھی پریشان ہوگی اور کاروباری سرگرمیوں کا گراف نیچے گرے گا۔ اس کے نتیجے میں امید ہے کہ مسلم دشمن حکمرانوں اور تنظیموں کے قدم پیچھے ہٹیں گے، مسلم دشمنوں کو تقویت دینے والی قوم پر کچھ نہ کچھ دہشت طاری ہو گی، غنڈہ عناصر کے حوصلے پست ہوں گے ، اور مظلوم و لاچار مسلمانوں میں کچھ حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا ہوگی، مگر ۔۔۔۔
مگر عقل اس بات سے حیران و پریشان ہے کہ مسلمانوں کو جمع کرنے کی طاقت رکھنے والی تنظیمیں ، ادارے اور شخصیتیں مدافعت کا یہ کم سے کم قدم بھی اٹھانے کو تیار کیوں نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس سے بھی عاری ہو چکے ہیں ۔ کیا اس کاہلی، کوتاہی اور بزدلی کو کوئی حکمت عملی کہا جاسکتا ہے ؟ کیا اللہ کو اس طرح کا ذلت آمیز طرز عمل پسند ہے ؟ کیا رسول اللہ کی زندگی کے کسی بھی واقعے سے اس عاجزانہ اور بزدلانہ رویے کے لئے کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے ؟ ہر گز نہیں ، قطعی نہیں ۔ بلکہ یقینی طور سے یہ ‘وہن’ کی حالت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہن کا مطلب ہے دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا تمھارے (اکابرین کے) اوپر وہن طاری ہوجانے کی وجہ سے تم آبادی میں بہت زیادہ ہوتے ہوئے بھی جھاگ کی طرح ہو جاؤ گے۔
اللہ سے دعا ہے کہ تمام مسلم تنظیموں کے عہدیداروں کو، تمام نمایاں علماء کرام کو ، شریعت کے تحفظ کے دعوے داروں کو اور ان تمام لوگوں کو جن کے پیچھے مسلمانوں کے مختلف طبقات جمع ہوتے ہیں اپنی ذمے داری کا احساس ہوجائے، ان کے دلوں سے غیراللہ کاخوف نکل جائے، راحت و آرام سے جیتے رہنے کی چاہ نکل جائے، آخرت کی جواب دہی کی فکر اور جہاد فی سبیل اللہ کی طلب پیدا ہوجائے۔ اور ملت کے یہ اکابرین اللہ سے ملاقات کے خوف اور شوق میں ملت کے تحفظ کے لئے کھڑے ہونے پر آمادہ ہو جائیں۔ جو لوگ نفاق کی بیماری میں مبتلا ہیں انہیں ایمان خالص اور جذبہ صادق کی توفیق مل جائے ۔آمین یارب العالمین
اندھے بہروں کی بستی میں یوں کون توجہ کر تا ہے
ماحول سنے گا دیکھے گا جب بول اٹھیں گی زنجیریں
ازقلم: عدیل اختر