یہ واقعہ مہاراشٹر کے خاندیش علاقہ کا ہے، ایک چھوٹے سے غیر معروف دیہات میں غالبا شیخ وسیم نامی نوجوان جو رکشا چلاتا ہے، اس کی گاڑی کو چار آدمیوں نے آواز دیکر روکا،، انکو لیکر وسیم مطلوبہ مقام کی طرف چل پڑا، چاروں شراب کے نشہ میں تھے، شام کا وقت تھا، تب ہی ان میں سے ایک کی نظر رکشا میں لگے 786 کے اسٹیکر پر پڑی، آپ جانتے ہیں دیہاتی مسلمان روانی سے مراٹھی بولتے ہیں، اس لئے مذہب پہچاننا مشکل ہوتا ہے، لیکن اسٹیکر کو دیکھ کر چاروں مسافر نے وسیم سے بازپرس شروع کردی، اور گالی گلوج پر اتر آئے، وسیم انکو نظر انداز کرتا رہا، کہ یہ لوگ نشے میں ہیں، اب گالی کے ساتھ ان لوگوں نے چالو گاڑی میں اس پر ہاتھ اٹھانا بھی شروع کردیا، اور گاڑی روکنے کو کہا، اسے لگا، یہ لوگ گاڑی سے اترنا چاہتے ہیں، لہذا اس نے فورا گاڑی روک دی، لیکن ایسا نہیں ہوا، وہ لوگ مسلسل وسیم پر تشدد کرتے رہے، اور وہ بے چارہ ہاتھ پیر جوڑتا رہا، اسے لگا کہ یہ لوگ مار ٹھوک کے اسے چھوڑ دینگے، لیکن تشدد بڑھتا گیا، ہاتھ پیر کی جگہ لاٹھی ڈنڈوں نے لے لی، وسیم روتا بلکتا دہائی دیتا رہا، پھر دیکھا کہ ایک شر پسند ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر لارہا ہے، اسے اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آئی، لیکن اچانک اسکی کوئی حس بیدار ہوئی، اور گاڑی میں رکھا ایک لوہے کا پائپ اٹھا کر اس نے اس کے سر پر مارا، اور وہ سخص وہیں زمین پر گرپڑا، اپنے ایک ساتھی پر حملہ دیکھ کر تینوں بوکھلائے اور اپنے پاس موجود چاقو نکال لیا، ایک کا تو تقریبا کام تمام ہوچکا تھا، اب یا تو ان تینوں کے ہاتھوں مرنا ہے، یا ان کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا، اس سے پہلے کہ یہ لوگ چاقو سے حملہ کرتے وسیم نے ایک کے بعد دیگرے تینوں کے سر پھاڑ دیے، زمین پر خون میں لت پت چار لاشیں پڑی تھی، راہگیروں نے جب دیکھا تو پاس ہی گاوں میں جاکر خبر دی، پھر کیا تھا، لاٹھی ڈنڈے لیکر ایک بھیڑ آنے لگی، اور وسیم کو ایک مرتبہ پھر موت سامنے نظر آئی، لیکن اب اس نے مارنا سیکھ لیا تھا، لوگ جوں ہی پاس آۓ، خون میں لت پت چار لاشیں دیکھ کر بھیڑ کی بھی سٹی گم ہوگئی، وسیم نے گرج دار آواز میں دھمکی دی کہ جس کو اپنی لاشیں بچھانا ہے، وہی آگے بڑھے، سب کے سب گھبرا گئے کسی نے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی، اب وہ لوگ کچھ پیچھے ہٹ گئے لیکن وسیم کا محاصرہ کیے رہے، انہیں میں سے کسی نے پولس کو خبردی، پولس آئی اور وسیم کو گرفتار کر کے لے گئی، جسے اللہ رکھے کے مصداق اسطرح وسیم بھیڑکے ہاتھوں بھی مرنے سے بچ گیا،،
غیر مصدقہ خبروں کے مطابق،،،، وسیم کو ایک مسلم وکیل نےحق دفاع کے تحت، دو برسوں کی محنت سے بری کروا لیا،، اب وسیم اس علاقے کو چھوڑ کر کہیں اور اپنی آزاد زندگی گزار رہا ہے، یہ کوئی فلم کی کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقی واقعہ ہے، اس واقعے سے فرقہ پرست طاقتوں کو زبردست شرمندگی اٹھانی پڑی۔
اگر یہ واقعہ معروف ہوجاتا، یا اس نوعیت کے چند ایک مزید واقعے ہوجاتے تو، ملک کا منظر نامہ کچھ اور ہوتا، کوئی تمھاری طرف آنکھ اٹھانے سے پہلے سو بار سوچتا ۔