جنگ آزادی پر ایک طائرانہ نظر (قسط نمبر 2)

آزادی بذریعہ طاقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1915 میں ریشمی رومال کی تحریک مسلمانوں کا ایک اور جرأت مندانہ اقدام تھا جو بغاوت کے فرد جرم تک جاتا ہے ، مگر تحریک چلانے والے خوش قسمت تھے کہ کئ سو کی تعداد میں پولیس کی عبرتناک مظالم سہے ، اور رہنماء قید و بند کی اذیتناک زندگی گزار کر چار پانچ سال بعد زندہ ہندوستان واپس آگئے ،

جلیانوالہ باغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1919 آزادی کی تاریخ میں یاد گار بن گیا کیونکہ جلیانوالہ باغ امرتسر کا واقعہ اسی سال ہوا ، عوامی بیداری کا اس سے صحیح احساس پیدا ہوتا ہے آپ جلیانوالہ باغ میں شہید ہونے والوں کی فہرست پر نظر ڈالیں گے تو مسلمانوں کے ہر طبقہ کے لوگوں کو بڑی تعداد میں خون شہادت سے سرخرو پائیں گے ،

تحریک خلافت کا زمانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس کے بعد تحریک خلافت میں ترک موالات اور عدم تعاون کا جوش و خروش ابھرا تو مسلمان ہی قیادت کے فرائض انجام دیتا رہا ، اور مسلسل قید و بند اور پولیس کی سختیاں برداشت کرتا رہا اس طرح 1925 تک آزادی کے میدان میں وہ قائدانہ رول ادا کرتا رہا ، پھر 1927میں ہندوستان نے برطانوی حکومت کا چیلنج منظور کرکے ایک متفقہ دستور پیش کرنے کا تہیہ کیا مگر افسوس کہ متفقہ دستور کی کوشش نے ہندو مسلم اتحاد کے شیرازہ کو منتشر کردیا جبکہ تحریک خلافت نے مثالی کردار انجام دیا تھا ، اگر چہ یہ بات تلخ ہے مگر صداقت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اس سلسلہ میں جن لوگوں نے مرکزی کردار ادا کیا انہوں نے صاف دلی سے اس اتحاد کو باقی رکھنے کی کوشش نہیں کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہرو رپورٹ کو اگر مولانا شوکت علی مولانا احمد علی اور مسٹر جناح نے رد کیا تو خالص قوم پرور مسلمانوں کیلیے بھی یہ رپورٹ نا قابل قبول رھی جب کہ وہ کانگریس سے شانہ بشانہ مل کر کام کررہے تھے اور بعد میں وہ پوری زندگی کانگریس کے محاذ سے برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کرتے رہے اس لئے مسلمانوں پر یہ الزام عائد نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے آزادی کی حقیقی لڑائی سے انحراف کیا ،

آخری منزل تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیسوی صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں کانگریس کی طرف سے ستیہ گرہ اور نان کوآپریشن کے پروگرام چلائے گئے اس سلسلہ میں بھی آپ دیکھیں گے کہ مسلمان قوم ان سارے پروگراموں میں برابر کے ساتھی کی طرح سرگرم کار رہی اور بہت سے پرجوش مسلمانوں نے گاندھی جی کی گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے بغاوت تک کردی اور پھانسی کے تختے پر چڑھا دئے گئے ، 1937میں کانگریسی وزارت کے موقع پر ہندو مسلم خلیج اور بڑھ گئی لیکن اگست 1942 کی تحریک جو ایک طوفانی تحریک تھی جس میں لاتعداد ہندوستانی گرفتار ہوئے اور پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے ، اس موقعہ پر بھی آپ دیکھیں گے کہ مسلمان نے قید و بند کی مصیبتیں ہی نہیں جھیلیں بلکہ شمع آزادی پر پروانہ وار نثار ہوگئے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنی ، 1942 کے بعد پانچ سال کا دور ایسا ہے جس نے ہندو مسلم خلیج کو ناقابل عبور حد تک وسیع کرکے مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں کی قدر و قیمت کو کم کردیا اور اس کی سیکنڑوں سال کی انتھک جد و جہد اور ایثار و قربانی بے وزن مانی جانے لگی مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ اس نے جنگ آزادی میں آگے بڑھایا ہوا قدم پیچھے ہٹایا ہو ،
دوسری جنگ عظیم کا سلسلہ جاری ہی نہیں تھا بلکہ لڑائی کی آگ اور تیزی سے بھڑک اٹھی تھی اور اس کی آنچ ہندوستان میں بھی محسوس کی جانے لگی تھی جاپانی قوم ہندوستان کے دروازہ پر دستک دے رہی تھی اس وقت سبھاش چندر بوس کی قیادت میں مسلمانوں کے ان گنت سپاہی اور فوجی افسران برطانوی حکومت کے خلاف نبرد آزمائی میں دوسرے برادران وطن سے آگے تھے اور 1946 میں آزاد ہند فوج کے گرفتار شدگان میں مسلمانوں ھی کی تعداد زیادہ تھی اگر حالات سازگار ہوتے تو انگریز انہیں پھانسی سے کم سزا نہیں دیتے اس کے علاوہ آزاد ہند فوج کے مورچہ سے برطانوی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے مسلمان فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا اسی 1946 میں بمبئی اور کراچی کے بحری بیڑوں نے بغاوت کا بگل بجایا اس بغاوت میں مسلمان فوجیوں نے مثالی کردار ادا کیا اور اس بغاوت کی حمایت میں شہریوں نے جو طوفان خیز مظاہرہ کیا اس میں بھی مسلمان شہیدوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے ، اس طرح 1857 سے 14اگست 1947تک مسلمانوں نے تسلسل کے ساتھ اتنی قربانیاں دی ہیں کہ ان پر ہزار صفحات کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ، اور جب بھی کوئی مؤرخ دیانتداری کے ساتھ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ مرتب کریگا تو اس کیلیے ممکن نہیں ہے کہ مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں کو نظر انداز کرسکے۔

ختم شد۔

تحریر: مجیب الرحمٰن
7061674542

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے