یہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ (قسط 3)

زمین کی اپنی پیدائش کے وقت شکل بالکل ایسی تھی جیسے ہر جگہ آتش فشاں پھٹ رہے ہوں۔ لیکن جیسے ہی درجہ حرارت کم ہونے لگا تو زندگی جنم لینا شروع ہو گئی۔ اس مرحلے میں تب نہ کوئی انسان تھا نہ جانور یہاں تک کہ سب سے چھوٹے جاندار یعنی بیکٹیریا تک کا وجود نہ تھا۔ لیکن تب بھی زمین پر ان سب کو جنم دینے والا عنصر یعنی مادہ موجود تھا۔ پھر کیمیائی ارتقاء کا آغاز ہوا جس میں مادے کے چھوٹے خلیے ملے اور مالیکیولز بنے اور پھر ان لاکھوں مالیکیولز کے ملنے سے ایسے خلیے وجود میں آئے جو خود سورج کی روشنی استعمال کر کے اپنی خوراک بنانے کے قابل تھے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک بنیادی اصول تھا کہ مرنے سے پہلے ہر خلیہ ایک سے دو ہو جاتا، اس طرح ان کی تعداد بڑھتی رہی۔

یہ تھے بیکٹیریا۔ یہ بیکٹیریا ایسے جاندار تھے جنہیں زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت نہیں تھی، البتہ یہ خود آکسیجن پیدا کرتے تھے۔ چوں کہ ان کی تعداد کافی زیادہ تھی اس لیے زمین پر فضا میں آکسیجن کی مقدار بڑھنا شروع ہو گئی۔ فضا میں آکسیجن کی مقدار جیسے جیسے زیادہ ہوتی چلی گئی، ویسے ویسے مادے سے خلیے بننے کا عمل کم ہوتا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی جاندار بے جان چیزوں سے نہیں بنتا۔ سائنسی نظریے کے مطابق ارتقاء گھنٹوں، دنوں، یا سالوں پر محیط کوئی عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایسی طویل زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی کے جڑنے میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔

اب کیمیائی ارتقاء کے بعد حیاتیاتی ارتقاء یعنی چھوٹے جانداروں سے دوسرے بڑے جانداروں کے بننے کا عمل شروع ہوا۔ بیکٹیریا سے شروع ہونے والا ارتقائی عمل بہت سے خلیوں پر مشتمل جانداروں کی تشکیل کا سبب بنا، جن میں سب سے پہلے مچھلیاں پیدا ہوئیں، ان کے بعد یعنی خشکی اور تری دونوں میں رہنے والے جاندار بنے، پھر رینگنے والے جانور یعنی چھپکلیاں، اور مگرمچھ، اس کے بعد پرندے، اور سب سے آخر میں ممالیہ جانور یعنی بھیڑ، بکری، گائے، انسان وغیرہ بتدریج وجود میں آتے گئے۔

ان بھرپور معلومات اور تیز تر ٹیکنالوجی کے ذرائع میسر ہونے کے باوجود آج بھی انسان کائنات کے چھپے ہوئے رازوں کی گتھیاں مکمل طور پر سلجھانے میں ناکام ہے۔ کیوں کہ اس طویل ترین زنجیر کی کئی کڑیاں اب تک غائب ہیں۔ مگر تلاش اور جستجو کا سفر جاری ہے۔ ہم انسان کائنات کے چھپے ہوئے رازوں کو تو جاننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ انسان بھی تو صرف 2 لاکھ سال پہلے کائنات کے کسی ایک صفحے پر وجود میں آیا تھا۔ اب سوال یہ کہ انسان سے پہلے کیا تھا، کیا نہیں تھا، اس پر مشاہدات تو کیے جا چکے ہیں لیکن کائنات کے بننے سے لے کر آج تک اتنے واقعات ہوئے ہیں کہ اس کے لئے اب بھی بہت جستجو اور تحقیق کی ضرورت ہے۔
کائنات تو اس قدر وسیع ہے کہ سائنسدان اب تک اس کی حدود کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ یہ زمین جس پر انسان اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے اب یہ بھی ختم ہونے والی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق زمین کی عمر بہت کم رہ گئی ہے۔ یہ زمین کسی بھی وقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ دنیا کے معروف ترین سائنسدانوں میں سے ایک پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ نے خبردار کیا تھا کہ اگلے ایک ہزار برسوں تک انسانوں کو اپنا ٹھکانہ کسی اور سیارے پر بنانا ہوگا۔

آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی سے خطاب کے دوران 74 سالہ سائنسدان نے کہا تھا کہ اگر انسان نے رہائش کے لیے کوئی اور سیارہ دریافت نہیں کیا تو ایک ہزار سال کے اندر انسانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ انسانوں کو خلاء میں اپنی رہائش کے لیے نئے مقام کی کوششوں کو جاری رکھنا ہوگا ورنہ انسانی نسل کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے کائنات کا مکمل نظریہ نامی ایک کتاب لکھی تھی۔

یہ کتاب سٹیفن ہاکنگ کے لیکچروں کا مجموعہ ہے۔ یہ لیکچرز اسٹیفن ہاکنگ نے مختلف مواقع پر دیے تھے۔ لیکچروں میں ہاکنگ نے فلکی فزکس کا احاطہ کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ کائنات کے مکمل ترین اور حتمی نظریے تک پہنچنے کے لیے اب تک کیا کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور آنے والے سالوں میں اس حوالے سے کیا امیدیں وابستہ ہیں۔ ان لیکچروں کے ذریعے مصنف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ بگ بینگ سے لے کر بلیک ہولز تک، کائنات کی تاریخ کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں اور کیا سوچتے چلے آ رہے ہیں۔ کتاب میں کل سات لیکچر ہیں۔ ہم میں سے بہت ساروں نے خلائی مخلوق کے بارے میں بہت ساری فلمیں ہالی وڈ کی فلمیں دیکھ رکھی ہیں اور فکشن کی کتابوں میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔

کائنات تو اس قدر وسیع ہے کہ سائنسدان اب تک اس کی حدود کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ یہ زمین جس پر انسان اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے اب یہ بھی ختم ہونے والی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق زمین کی عمر بہت کم رہ گئی ہے۔ یہ زمین کسی بھی وقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ دنیا کے معروف ترین سائنسدانوں میں سے ایک پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ نے خبردار کیا تھا کہ اگلے ایک ہزار برسوں تک انسانوں کو اپنا ٹھکانہ کسی اور سیارے پر بنانا ہوگا۔

آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی سے خطاب کے دوران 74 سالہ سائنسدان نے کہا تھا کہ اگر انسان نے رہائش کے لیے کوئی اور سیارہ دریافت نہیں کیا تو ایک ہزار سال کے اندر انسانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ انسانوں کو خلاء میں اپنی رہائش کے لیے نئے مقام کی کوششوں کو جاری رکھنا ہوگا ورنہ انسانی نسل کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے کائنات کا مکمل نظریہ نامی ایک کتاب لکھی تھی۔

یہ کتاب سٹیفن ہاکنگ کے لیکچروں کا مجموعہ ہے۔ یہ لیکچرز اسٹیفن ہاکنگ نے مختلف مواقع پر دیے تھے۔ لیکچروں میں ہاکنگ نے فلکی فزکس کا احاطہ کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ کائنات کے مکمل ترین اور حتمی نظریے تک پہنچنے کے لیے اب تک کیا کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور آنے والے سالوں میں اس حوالے سے کیا امیدیں وابستہ ہیں۔ ان لیکچروں کے ذریعے مصنف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ بگ بینگ سے لے کر بلیک ہولز تک، کائنات کی تاریخ کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں اور کیا سوچتے چلے آ رہے ہیں۔ کتاب میں کل سات لیکچر ہیں۔ ہم میں سے بہت ساروں نے خلائی مخلوق کے بارے میں بہت ساری فلمیں ہالی وڈ کی فلمیں دیکھ رکھی ہیں اور فکشن کی کتابوں میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔

جاری۔۔۔۔۔۔

تحریر : اجمل شبیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے