کائنات میں نئے مادّے کا ظہور
فلکی طبیعیات کا یہ مُشاہدہ ’ہیسنبرگ‘ – (Heisenberg) کے ’غیریقینی حالت کے قانون‘ (uncertainty principle) کا نتیجہ ہے۔ اِتنے عظیم واقعات کی غیریقینی حالت کی کیفیات میں سے گزر کر جب اِلیکٹران میں سے اُس کی ساری توانائی خارِج ہو گئی تو وہ بے قاعدگی کے ساتھ بکھرتی ہی چلی گئی اور یوں اُس کا اِطلاق خلاء کے مقام پر ہونے لگا۔ اگر اُن صفر مقام کے حامل تغیّرات (zero-point fluctuations) کا تعاقب کیا جائے تو وہ توانائی کی دیوقامت مِقدار کی غمازی کرتے ملیں گے، جسے ممکن ہے کہ کائنات کے دُوسرے مقامات سے اُدھار لی گئی توانائی تصوّر کیا جائے۔ نتیجۃً اُس مُستعار توانائی کے ذریعے بعض اَوقات کوئی ذرّہ پیدا بھی ہو سکتا ہے اور بعد اَزاں فوری طور پر تباہ بھی ہو سکتا ہے۔ اِس تصوّر کو پہلی بار 1948ء میں ڈچ ماہرِ طبیعیات ’ہینڈرک کیسیمر‘ (Hendrick Casimir) نے پیش کیا اور بعد ازاں اُن ذرّات کی موجودگی کا اِنکشاف بھی اُسی سال 1948ء ہی میں ایک امریکی ماہرِ طبیعیات ’وِلس لیمب‘ (Willis Lamb) نے کیا۔
حال ہی میں طبیعیات کے پروفیسر ’پال ڈیویز‘ (Paul Davies) نے دلیرانہ انداز میں یہ اِعلان کیا ہے کہ نئے مادّے کا عدم سے وُجود میں آنا اللہ ربُّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کا ایک اہم ثبوت ہے۔ یہ جدید تصوّرات ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ (Big Bang Theory) اور اللہ تعالیٰ کی غیبی قدرت کے بارے میں ہمارے فہم و اِدراک میں اِضافہ کرتے ہیں۔ تاہم ہم یہ دیکھتے ہیں کہ محیّر العقول دھماکہ کائنات کی پیدائش کا ایک بنیادی سبب تھا اور اُسی کے مطابق کائنات کی طبیعی ساخت اور سِتاروں اور کہکشاؤں کا وُجود عمل میں آیا۔ جدید ترین اَعداد و شمار کے مطابق اُس دیوقامت دھماکے کا پہلا مرحلہ ایک سیکنڈ کے اربویں حصے (one billionth second) میں مکمل ہو گیا تھا، جب کہکشاؤں اور سِتاروں کو جنم دینے والا مادّہ آپس میں جڑا ہوا تھا۔ اَوّلیں جدائی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے (one thousandth second) میں وُقوع پذیر ہوئی تھی۔
آیئے اب ہم علمِ فلکی طبیعیات اور علمِ تخلیقیات کی معلومات کی رَوشنی میں آیتِ مبارکہ کا ازسرِنو مطالعہ کرتے ہیں :
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِO مِن شَرِّ مَا خَلَقَO
(الفلق، 113 : 1، 2)
آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوںo ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہےo
’عدم سے حاصل ہونے والے وُجود‘ اور ’پہلے سے موجود مواد سے پیدا ہونے والی مخلوق‘ کے ذِکر میں قرآنِ مجید ’’فَلَق‘‘ کی اِصطلاح اِستعمال کر رہا ہے، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اُن کا وُجود میں آنا ایک اِبتدائی دھماکے کا مرہونِ منّت ہے۔ اِن آیاتِ مبارکہ کا سب سے اہم رُخ یہ ہے کہ یہاں صفتِ ربوبیّت کے بیان میں ’’رَبُّ الْفَلَقِ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔ بہت سے مفسّرین نے اِس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیّت کی شان بہترین انداز میں بیان کرتی ہے۔ ایک سیکنڈ کے دس اربویں حصے (10 billionth second) میں دس سنکھ (10,00,00,00,00,00,00,00,000) سِتارے ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ یہ سب اللہ ربّ العزّت کی ربوبیّت کی طاقت سے ہی ممکن ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مادّی کائنات کی تشکیل کا اِرادہ فرمایا اور ’’کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘ کے حکم کے ساتھ ایک دھماکہ پیدا کیا۔ ’’فَلَق‘‘ جو اُسی دھماکے کا نتیجہ ہے، اُس وقت ربوبیّتِ بارِی تعالیٰ کی طاقت سے ایک محیّرالعقول کمپیوٹری حکم کے ذریعے منظم ہو گیا تھا۔ آیتِ کریمہ میں لفظِ ’’رَبّ‘‘ اور لفظِ ’’فَلَق‘‘ کو ذِکر کرنے کی یہی وجہ ہے کہ تمام مخلوقات کو اِنشقاق اور دھماکے کے نتیجے میں پیدا کیا گیا۔ تاہم اِس سے پہلے کہ کوئی چیز ظہور پذیر ہونے کے لئے ضروری خصوصیات کی حامل ہو سکے اُسے اللہ ربّ العزت کی ربوبیّت کی صفات ہی کا فیض حاصل کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ طبیعی کائنات اور حیاتیاتی کمپیوٹری نظام کے قابل ہو سکے۔ یہ دَرحقیقت خالقِ کائنات کی بصیرت کا کمال ہے جو تمام کائنات پر حاوِی ہے۔ گویا اللہ ربّ العزّت نے فرمایا کہ میری قدرتِ کاملہ میں ہر اُس مخلوق چیز کے شر سے پناہ حاصل کرو کہ جس کی تشکیل میری صفتِ ربوبیت کے فیضان سے ایک دھماکے کے نتیجے میں وُقوع پذیر ہوئی۔ میں تمہارا ربّ اور اِن کہکشاؤں کا حکمران ہوں جنہیں میں نے ایک عظیم دھماکے کے ساتھ خلا کی لامُتناہی وُسعتوں میں بکھیر رکھا ہے۔ ایسا دھماکہ جو ایک اِکائی سے شروع ہوا اور اُس کے ذریعے بہت سی ایسی طاقتیں، قوتیں، شعاع ریزیاں اور ردِعمل معرضِ وُجود میں آئے، جو زِندگی کے لئے مہلک ہو سکتے ہیں۔ پس اُن ضَرَر رساں لہروں سے میری پناہ حاصل کرو، کیونکہ جو کوئی میری پناہ لیتا ہے وہ ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
عظیم دھماکے کا پیش منظر
عظیم ماہرِ طبیعیات ’سٹیفن ہاکنگ‘ (1) (Stephen Hawking) کی تحقیق کے مطابق عظیم دھماکے سے فقط چند گھنٹے بعد ہیلئم اور دُوسرے عناصر کی افزائش تھم گئی اور اُس کے بعد اگلے کئی لاکھ سال تک کائنات کسی قابلِ ذِکر حادثے کے بغیر سکون کے ساتھ مسلسل پھیلتی ہی چلی گئی۔ پھر جب رفتہ رفتہ (کائنات کا اَوسط) درجۂ حرارت چند ہزار درجے تک گِر گیا تو اِلیکٹران اور مرکزے (nuclei) کے پاس اِتنی توانائی برقرار نہ رہ سکی کہ وہ اپنے درمیان موجود برقی مقناطیسی کشش پر غالب آ سکتے،
(1) ’سٹیفن ہاکنگ‘ دُوربین کے مُوجد ’گیلیلیو گیلیلی‘ کی وفات کے ٹھیک 300 سال بعد 1942ء میں برطانیہ کے علمی شہر ’آکسفورڈ‘ میں پیدا ہوا۔ اُس نے فزکس کی اِبتدائی تعلیم ’آکسفورڈ یونیورسٹی‘ سے حاصل کی اور اُس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے کیمبرج چلا گیا۔ نوجوانی کی عمر میں ہی وہ ’موٹرنیورون‘ (motor neurone) نامی بیماری میں مبتلا ہو گیا مگر اُس کے باوُجود تحقیق و جستجو کے دروازے اُس نے کبھی بند نہ ہونے دیئے۔ یہ اُسی محنت کا صلہ تھا کہ وہ ’کیمبرج یونیورسٹی‘ میں ریاضی کا پروفیسر بنا اور ’نیوٹن کی تاریخی کرسی‘ کا حقدار قرار پایا۔ اُس کا مرتبہ ایک عظیم سائنسدان کے طور پر نیوٹن اور آئن سٹائن کے ہم پلہ تصور کیا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی معروف کتاب A Brief History of Time میں نہ صرف کائنات کی تخلیق و توسیع اور قیامت کی کئی ایک ممکنہ صورتوں کے متعلق جدید نظریات اِنتہائی آسان پیرائے میں بیان کئے ہیں بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ زمان-مکان پر بھی گفتگو کی ہے۔
اِس لئے اُنھیں مجبوراً باہم مل کر ایٹم تشکیل دینا پڑے اور مادّے کا بنیادی تعمیری ذرّہ ایٹم وُجود میں آیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر پوری کائنات پھیلنے اور ٹھنڈا ہونے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم وہ علاقے جو نسبتاً زیادہ کثیف ہیں وہاں وُسعت پذیری کا عمل زیادہ کششِ ثقل کی وجہ سے آہستہ ہو گیا ہے۔ یہی چیز آخرکار کائنات کے پھیلاؤ کو کچھ علاقوں میں روکنے کا باعث بنے گی، جس کے بعد کائنات اندر کی جانب واپسی کا سفر شروع کر دے گی۔ اندر کی طرف ہونے والے اِنہدام کے دَوران جن مخصوص حلقوں سے اِنہدام شروع ہو گا اُن سے باہر موجود مادّے کی کششِ ثقل شاید اُنہیں آہستہ سے گھمانا شروع کر دے۔ جوں جوں مُنہدم ہونے والے حلقے چھوٹے ہوتے چلے جائیں گے، اُن کے گھومنے میں اُسی قدر تیزی آتی چلی جائے گی۔ بالآخر جب کوئی حلقہ بہت چھوٹا رہ جائے گا تو وہ اِتنی تیزی سے گھومے گا کہ کششِ ثقل کا توازُن برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ گھومتی ہوئی چکردار کہکشائیں (spiral galaxies) بھی اِسی انداز میں پیدا ہوئی تھیں جبکہ دِیگر کہکشائیں جن میں محوری گردِش کا یہ عمل ظاہر نہیں ہوا وہ بیضوِی شکل اِختیار کرتی چلی گئیں جس کی وجہ سے اُنہیں بیضوی کہکشائیں (elliptical galaxies) کہا جاتا ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ؛ اگلی قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں!