جب اسکولی نظام ہی بن‌ جائے تشدد کا اکھاڑہ

کاش کے جتنا متحرک ہم کچھ دن پہلے تھے چندریان کی کامیابی پر اتنے ہی متحرکدہلی کے رگینگ معاملے اور التمش کے معاملے میں ہوتے۔۔ ہندوستان کے چپے چپے میں جشن کا ماحول تھا ۔۔ اور ابھی بھی اس کی کامیابی پر ہندوستان پُھلے نہیں سما رہا ہے ۔خوشی حق بجانب بھی ہے کہ کسی ملک کی کامیابی کے تعین میں اس طرح کے اقدامات اہم ثابت ہوتے ہیں ۔ لیکن وہیں ملک کے ان حالات پر بھی حکومت کی توجہ مبذول ھونی چاہیے جہاں ملک کو ترقی پر پہنچانے کےلیے ایسے سائنسداں ، انجنئیر ، ماہرین تعلیم پارہے ہوتے ہیں ۔۔ لیکن حکومت اس جانب پیٹھ پھیر کر چندریان کی کامیابی میں مصروف ہے ۔۔ جبکہ عوام صمہ بکمہ کا مجسمہ بنے محو تماشا ہے ۔ عوام یہ یاد رکھے کہ کل کو یہ ہی زہریلے سانپ آپ کو بھی ڈس سکتے ہیں پھر آپ اس زہریلی بستی میں تریاق کےلیے تڑپتے رہوگے لیکن کوئی بچانے والا نہ ہوگا ۔
ابھی گزشتہ دنوں کی ہی بات ہے کہ دہلی ریگینگ کیس کی سماعت بھی نہ ہونے پائی ۔۔۔۔ والدین کی آہیں چیخیں سب بیکار ہوا میں تحلیل ہورہی تھی کہ کل ایک نیا معاملہ پیش آیا۔ مظفر نگر کے ایک علاقائی نیہا پبلک اسکول میں التمش کی اس کے ہی کلاس فیلو کے ذریعے پٹائی کرائی گئی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بچے جن کو اپنا آیڈیل مانتے ہیں ، جن سے زندگی گزارنے کے رہنما اصول سیکھتے ہیں ۔ جو ہمارے ملک کے معمار کہلاتے ہیں ۔ استاد ! ہاں یہ کام ایک انتہائی حیوانی ذہنیت رکھنے والی ٹیچر کے ذریعے کرایا گیا ۔ جو وڈیو وائرل ہوئی ہے اس میں ایک خاتون جو خود کو ٹیچر کہلاتی ہیں ترپت گپتا کہتی ہوئی نظر آرہی ہے کہ "میں نے تو ڈکلئیر کردیا ہے جتنے بھی ممڈن بچے ہیں ان کو مار کھِلاوں ، اور زور سے مارو”
وہیں التمش کو کلاس کے درمیان میں کھڑا کیا‌گیا ہے اور ایک ایک کرکے بچے آکر کوئی طمانچہ مارتا ہے کوئی کمر پر ۔۔ جبکہ التمش آنکھوں میں آنسوں لیے روتے ہوئے اس درد و کرب کو جھیل رہا ہے۔ بچہ جب گھر میں گیا تو التمش کے والد نے کہا وہ صدمے اور گھبراہٹ کی کیفیت میں تھا اور بہت زور زور سے رو رہا تھا ۔ آپ سوچیں یا اگر محسوس کرنے والا دل ہو تو ضرور محسوس کریں ۔اس بچے کی کیا حالت ہوگی ۔جِسے بھری کلاس میں اپنے ہی کلاس فیلو سے طمانچے لگواۓ گئے ہو ۔ کیا اب اس کی آنکھوں میں وہ خواب ہوں گے جس خواب کی تکمیل کےلیے وہ اسکول گیا تھا ۔ کیا اب پھر سے وہ کسی استاد پر بھروسہ کرپاۓ گا ۔۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اس طرح کے واقعات جو بچوں کو بچپن میں پیش آۓ ہوں وہ ان‌کی پوری زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔۔کیا پھر سے التمش کسی دوسری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی جرات کر پاۓ گا ۔یہ ایسے سوال ہے جن کے جواب صرف وہی دے سکتے ہیں جو ایسے کرب سے گزرے ہو ۔ بہت مشکل سے یہ واقعات ذہن سے نکلتے ہیں ۔ جبکہ جو دوسرے بچے تھے جو مارنے میں شامل تھے انھوں نے کیا سیکھا تشدد کرنا ، اپنے سے کمزور کو ذلیل کرنا ، نفرت کو فروغ دینا ۔ معزرت کے ساتھ آج جو رگینگ کا معاملہ دہلی میں پیش آیا ہے کہیں نا کہیں ماضی میں ابتدائی تعلیم کے دوران ہی التمش جیسے واقعات انجام دئیے گئے ہوں گے تبھی بڑے ہوکر وہ طلبہ ایسے گھناؤنے کام آسانی سے کرلیتے ہیں ۔
موجودہ تعلیمی نظام ، اسکولی نظام اس قدر بدل چکا ہے کہ ماضی میں جہاں والدین بچوں کو پہنچا کر یہ سوچتے تھے کہ اب ہمارا بچہ محفوظ جگہ پر ہے ۔ ہمیں کوئی فکر کی ضرورت نہیں ۔لیکن حال میں اب وہی محافظ ہاتھ بچوں کو نوچنے لگے ہیں اب وہی حفاظت کرنے والے ہاتھ بچوں کو تخریب کاری پر ابھار رہے ہیں ۔ یہ کس طرح کی ذہنیت کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ ہندو مسلم کی آگ اب اسکولوں میں بھی پھیلتے جارہی ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اساتذہ بھی اس میں شامل ہورہے ہیں ۔ ہماری پولیس بھی وہاں ایکسپریس ٹرین کی اسپیڈ میں کاروائی کرتی ہے جہاں جرم کے ارتکاب کا نام و نشان نہ ہو اور جہاں پورا کا پورا آوا بگڑ ہو وہاں تفتیش کےلیے کمیشن بٹھاۓ جاتے ہیں ۔ تحریری شکایت مانگی جاتی ہے ۔۔ اور پھر کچھ دنوں کے بعد معاملہ سرد خانے میں ڈال کر پھر اسی طرح کسی نئے معاملے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ چندریان پر پہنچنے والے ملک کو زمین کی بھی خبر لینی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ مستقبل قریب میں خلا میں پرواز کرنے کہ بجاۓ ہندوستانی شہری جیل کی تعمیرات اور لحد کی کھدائی میں مصروف ہو ۔ اور اس طرح کا بھی پوری دنیا میں نیا ریکارڈ ہمارے ہندوستان کی جانب سے درج کیا جائے۔

ازقلم: خان شبنم فاروق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے