جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

اسکول یا مدرسہ یہ علم و فن کا گلشن کہلاتا ہے ۔ جہاں سے بچے علم‌ کے کئ پھول چنتے ہیں۔ استاد گلشن علم و فن کا باغبان ہوتا ہے۔ جس طرح ایک باغبان باغ کے پودوں کی بہترین نشونما کیلئے تمام نقصاندہ چیزوں کو وقت پر نکال پھینکتا ہے۔ اسی طرح ایک استاد بچوں کے لئے باغبان ہوتا ہے جو پودا لگانے، اس کی نگہداشت اور درست نشونما کرنے، اور اسے پھل پھولوں سے لدا دیکھنے سے مطلب رکھتا ہے۔ اپنے طلباء کے ذہنوں سے تمام برے خیالات کا خاتمہ کرتے ہوۓ اپنے طلباء کی ذہنی نشونما کی آبیاری کرتا ہے۔
کوئلہ تراش کوئلے کو تراش کر ہیرا بناتا ہے اسی طرح انسان کی پیدائش کے بعد ایک استاد انسان کو آدمیت سے تراش کر انسانیت کی ڈھانچے میں ڈھالتا ہے۔ استاد معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے والا ہوتا ہے۔ جس طرح جسدِ خاکی کی تربیت و پرورش حقیقی والدین کی ذمے داری ہے تو وہی انسانی روح کی تربیت و پرورش کی ذمہ داری استاد کی ہوتی ہے۔ استاد محبت، اخوت، رواداری، ہم دردی، ایثار، قربانی، اتفاق، اتحاد، شرافت، امانت، دیانت، صداقت جیسے خواص کا حامل ہوتا ہے۔ استاد ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ استاد کو قوم کا معمار کہا جاتا ہے۔استاد ہمارے لیے خدا کی ایک خاص نعمت ہیں۔ استاد معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہوتا ہے۔ وہی ہیں جو ایک اچھی قوم بناتے ہیں ۔ ایک استاد ہمیں تلوار کے مقابلے قلم کی اہمیت سمجھاتا ہے۔ معاشرے میں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرتے ہیں۔ وہ معاشرے میں ایسے تعمیری بلاکس کی اہمیت رکھتا ہیں جو لوگوں کو بہتر انسان بناتے ہیں۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

ایک اچھا استاد ایک دوست کی طرح ہوتا ہے جو ہر مصیبت میں ہماری مدد کرتا ہے۔ ایک اچھا استاد اپنا انفرادی سیکھنے کا عمل تخلیق کرتا ہے جو منفرد ہوتا ہے نہ کہ مرکزی دھارے کا۔ اس سے طلبہ اس مضمون کو بہتر انداز میں سیکھتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں، ایک اچھا استاد اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ان کے طلباء موثر طریقے سے سیکھ رہے ہیں اور اچھے نمبر حاصل کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں جس مضمون کی تدریس اس کے حوالے کی جارہی ہے، وہ واقعی اس مضمون کا ماہر ہو اور اس مضمون پر مکمل عبور رکھتا ہو۔ ساتھ ہی ساتھ ایک استاد اپنے اوقاتِ درس کا پابند ہو اور اپنے وقت کو طلبہ کی امانت تصور کرتا ہو۔طالب علم کے ساتھ اہانت آمیز سلوک نہ کریں اور اس کی تذلیل کے درپے نہ ہو۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو صرف ہماری تعلیمی کارکردگی پر نہیں بلکہ ہماری مجموعی ترقی پر توجہ دیتا ہے۔ تب ہی ایک طالب علم حقیقی معنوں میں ترقی کر سکتا ہے۔۔ ایک استاد صرف استاد کے کردار پر قائم نہیں رہتا۔ ضرورت پڑنے پر وہ مختلف کرداروں میں ڈھل جاتے ہیں۔ جب ہم غمگین ہوتے ہیں تو وہ ہمارے دوست بن جاتے ہیں، جب ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو وہ ہمارے والدین کی طرح ہمارا خیال رکھتے ہیں۔

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

ایسے شخص کو مثالی استاد کہا جاتا ہے۔ جو اپنے شاگردوں کا دوست، فلسفی اور رہنما ہوتا ہے۔ جو اپنے شاگردوں کو جہالت کی تاریکی سے علم کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔جو اپنے خاص موضوع کے علاوہ ہماری عزت نفس کو بڑھانے، ہمارے کردار کی تعمیر اور ہم میں ایک عظیم انسان کی صفات پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔جو ہماری زندگی کے پیچیدہ وقت میں رہنمائی کرتا ہے کہ کس طرح ایک کامیاب زندگی گزاری جائے۔ وہ قوم عروج اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی جس نے اپنے اساتذہ کی قدر و منزلت کی۔ لیکن افسوس صد افسوس آج تعلیمی ادارے تجارتی منڈیوں میں تبدیل ہوئے جس کی بدولت استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ کہیں کھو چکا ہے۔”اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ اساتذہ نے پرواہ کرنا چھوڑ دی تو اب شاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں۔”
جدید دور میں کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے استاد نہیں بننا چاہتا ہے بلکہ جس کے پاس کیریئر کے انتخاب کا کوئی راستہ نہیں بچتا ہے وہ اس پیشے کا مجبوری میں انتخاب کرتا ہے۔ پھر اس کے نتیجے میں ایک مفلوج قوم پیدا ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں تدریسی پیشہ صرف نوکری، تنخواہ اور ترقی کی حد تک محدود ہوچکا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ اساتذہ کی اپنی ضروریات نہیں ہوتی ہیں۔ معاشرہ استاد کو اعلی مقام پر فائز کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دنیا کے باقی شعبوں کی طرح اپنے ہاتھ چند پیسوں کی لالچ میں آلودہ نہ کریں۔ بلکہ ایک استاد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کے کردار اور اعمال پر محنت کرے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ صرف اپنی تجوری نہ بھرے بلکہ وہ اپنے پیشے سے مخلص ہو کر اپنے فرائض انجام دیں تاکہ نسلوں کو جہالت اور تباہی کے گھڑے میں گرنے سے بچایا جاسکے۔

فہم و دانائی و ہنر کا آسماں اُستاد ہے
علم و حکمت کی یقینا کہکشاں اُستاد ہے
غور کر ناداں کہ تو بھی عزتِ اُستاد پر
جہل کی تاریکیوں میں ضوفشاں اُستاد ہے

ازقلم: سمیہ بنت عامر خان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے