ہندوستان میں ایک ملک ایک کرنسی ، ایک دفاعی فوج، ایک قانون، ایک جھنڈا، ایک عدالتی نظام اور ایک نظام مواصلات کا پہلے ہی سے رائج ہے، اسی بنیاد پر رومنگ سسٹم کو ختم کر دیا گیا، اب ایک ملک ایک انتخاب کی بات چل رہی ہے اور اسی کے لیے غالباپارلیامنٹ کا خصوصی اجلاس ۱۸؍ستمبر سے خلاف معمول بلا یا گیا ہے، اور اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کے جائزہ لینے کے لیے ایک آٹھ نفری کمیٹی سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سر براہی میں بنائی گئی ہے، کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے اُس کمیٹی سے خود کو الگ کر لیا ہے اس لیے اب ارکان کی تعداد سات رہ گئی ہے۔
آزادی کے بعد 1967تک ملک میں سیاسی استحکام تھا، ریاستوں میں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں خود رو پودے کی طرح سامنے نہیں آئی تھیں، مرکز اور ریاست کے بارے میں انتخابی نظریہ الگ الگ نہیں ہوا کرتا تھا، سیاسی استحکام کی وجہ سے دونوں کی مدت کا ر ایک ساتھ مکمل ہوتی تھی اور انتخاب بھی ایک ساتھ ہوجاتا تھا، یہ ایک اتفاق تھا، قانونی اور دستوری طور پر ایساکرانا ضروری نہیں تھا۔1967میں آٹھ ریاستوں میں کانگریس بر سر اقتدار نہیں آسکی اور آپسی رسہ کشی میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پارلیامنٹ کو 1970میں وقت سے پہلے تحلیل کر دیا، 1975میں ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کے نافذ ہوئے کے بعد پارلیامنٹ کی مدت کار چھ سال ہو گئی، 1977میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو اس نے کئی ریاستوں کے وزراء اعلیٰ کو ہٹا کر صدر راج لگا دیا، جنتا پارٹی کی حکومت ڈھائی سال میں ہی گر گئی ، اس طرح ریاست اور مرکز میں ایک ساتھ انتخاب کرانا ممکن نہیں ہوسکا اور دونوں کے انتخابات الگ الگ ہونے لگے، کیونکہ ہندوستان کی تمام ریاستی اسمبلیوں کی مدت کار ایک ساتھ ختم نہیں ہورہی تھی اور پارلیامنٹ کی مدت کار سے اسمبلیوں کی مدت کار کا جوڑ نہیں بیٹھ رہا تھا،لیکن یہ چرچا کا موضوع رہا کہ ایک ملک ، ایک انتخاب مفید ہے یا مضر ۔
سب سے پہلے 1999میں لا کمیشن نے اپنی 170 ویں رپورٹ میں پارلیامنٹ اور اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی تجویز رکھی 2015میں عوامی شکایات ، قانون وانصاف کی پارلیمانی کمیٹی نے دونوں انتخاب ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی ، 2017میں نیتی آیوگ نے ایک دستاویز جاری کیا، جس کے مطابق دو مرحلوں میں انتخاب کی تجویز رکھی گئی تھی۔اگست2018میں لا کمیشن نے نیتی آیوگ کی دومراحل میں انتخابات کرانے کی تجویز کو تسلیم دسمبر 2022میں لا کمیشن نے ایک ساتھ انتخاب کرانے کی تجویز پر سیاسی پارٹیوں ، انتخابی کمیشن، بیورو کریٹ، ماہرین تعلیم وسیاست سے رائے طلب کی ، رائے کیا آئی، لا ء کمیشن نے اس رپورٹ کو اب تک عام نہیں کیا ہے۔
پھر ایسا کیا ہوا کہ مودی جی اور بھاجپا کو بیک وقت اس کی یاد آگئی، اسکی وجہ حزب مخالف کا اتحاد ہے اور حکومت ایک نیا موضوع چھیڑ کربے روزگاری، مہنگائی، سرحد پر چینی تناؤ سے لوگوں کی توجہ بٹانا چاہتی ہے، چندریان -۳کی کامیابی میں گو حکمراں طبقے کا کوئی کمال نہیں ہے، یہ سارا کمال اسرو کا ہے،لیکن اس کی کامیابی کا سہرا بھی مودی جی نے اپنے سر لے لیا اور لوگوں کی توجہ اس کامیابی کی طرف مبذول کرنے کے لیے ایک لمبی تقریر کر ڈالی اور جن کی یہ اصل کامیابی تھی ان کو تقریر کرنے اور اپنی بات رکھنے کے لیے بہت کم وقت مل سکا۔
اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ 18ستمبر سے 22ستمبر تک پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا کا خصوصی اجلاس بلالیا گیا ہے، جس کا کوئی ایجنڈہ بھاجپا کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے اندازے کے مطابق اس خصوصی اجلاس کی پانچ نشستوں میں خواتین رزرویشن،یکساں شہری قانون، ایک ملک ایک انتخاب ، آئی پی سی ، سی آر پی سی قوانین میں ترامیم کے لیے بل پیش کیا جا سکتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بڑی جلدی میں ہے خود آر ایس ایس، اور بھاجپا کے اندر بڑا طبقہ مودی جی کے خلاف ہے اور وہ اگلے انتخاب میں نتن گڈگری کو وزیر اعظم کا چہرہ بناکر پیش کرنا چاہتا ہے، آر ایس ایس اور بھاجپا کو شکایت یہ ہے کہ مودی کی طاقت کے آگے ان دونوں تنظیموں کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے اور کہنے والے یہ کہنے لگے ہیں کہ مودی ہے تو ممکن ہے، مختلف پروگراموں میں مودی، مودی کا ورد کیا جاتا ہے اور پوری ٹیم میں کسی اور کا نام آتا ہی نہیں ہے، بہت ہوا تو کبھی امیت شاہ کا نام لے لیا گیا، اس لیے مودی جی عجلت میں ہیں جو کچھ کرنا ممکن ہو کرگذرنا چاہتے ہیں، اسی لئے مودی نے فوری طورپر ایک ملک، ایک انتخاب کے موضوع پر غورکرنے کے لئے کمیٹی بنائی اور اس کا چیرمین سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو بنادیا، سابق صدر جمہوریہ کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوگی کہ انہیں ’’ون نیشن، ون الیکشن‘‘ کمیٹی کا چیرمین بنا دیا گیا ہے، اور پتہ نہیں کس لالچ یا کس خوف سے ا نہوں نے اس کو قبول بھی کر لیا ہے، ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ سابق صدر جمہوریہ نے ایک چھوٹی کمیٹی کی صدارت قبول کر لی ہو۔
ظاہر ہے بھاجپا اور آر ایس ایس کے تھنک ٹینک نے اس کا خاکہ پہلے سے بنا رکھا ہوگا، کمیٹی اس خاکے پر مہر لگادے گی اور حکومت اسے خصوصی اجلاس میں پیش کرکے اس کی منظوری پارلیامنٹ سے لینا چاہے گی، لیکن یہ دوسرے بل کی منظوری کی طرح آسان نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک ملک ایک انتخاب کے لیے دستور میں پانچ ترمیمات کرنی ہوں گی، اور چونکہ انتخاب مرکز اور ریاست دونوں کا معاملہ ہے، اس لیے ریاستی اسمبلیوں سے بھی اس کی منظوری لینی ہوگی۔ 2018میں لاء کمیشن نے جو سفارشات پیش کی تھیں، اس کے مطابق دستور کی دفعہ 83,85,172,174اور 356میں اس کام کے لیے ترمیم ضروری ہوگی
، تبھی اسمبلیوں کی مدت کار کوکم اور زیادہ کرکے پارلیامنٹ کے ساتھ انتخاب کرانا ممکن ہو سکے گا۔
اگر اسمبلی اور پارلیامنٹ کے انتخاب ایک ساتھ ہونے کی منظوری مل جاتی ہے اور قانون بن جاتا ہے تو انتخاب کے اخراجات یقینا بہت کم ہو جائیں گے اور دوسرے کاموں کے لیے وقت بھی اچھا خاصہ بچے گا اور انتخابی کام کاج جلد نمٹ جائے گا، ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے ملکی سیاست میں استحکام ہو، اس کے ذریعہ سازش کرکے حکومت گرانے اور بدلنے کی مہم پر بھی لگام لگ سکتی ہے، لیکن صدر راج کے امکانات بڑھ جائیں گے، بعض حالات میں طویل مدت تک ریاستوں کو مرکز کے زیرنگیں رہنا پڑسکتا ہے اور اگر اسمبلی تحلیل کرکے وسط مدتی انتخابات کرائے گیے تو پھر انتخابات الگ الگ شروع ہوجائیں گے، اور ایک ملک ایک انتخاب کا فارمولہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ ریاست کے مفادات پس پشت چلے جائیں گے او رلوگوں کی ساری توجہ مرکزی انتخاب پر مبذول رہے گی، بھاجپا کی سوچ یہ ہے کہ عظیم اتحاد انڈیا میں جو چھوٹی ریاستی پارٹیاں شامل ہیں وہ اپنے وجود کے لیے اسمبلی انتخاب پر توجہ مرکوز رکھیں گی اور بھاجپا کے لیے مرکز تک پہونچنے کا راستہ ایک انتخاب کی وجہ سے صاف ہو جائے گا۔
تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ