تبلیغ دین کس چیز کا نام ہے ؟تبلیغ دین نام ہے دین سے نا آشنا افراد تک دین اسلام کی صحیح تصویر پہچانے کا۔اور دین اسلام کی صحیح تصویر کون پہنچاسکتاہے؟دین اسلام کی صحیح تصویر وہی پہنچا سکتاہے،جسے دین اسلام کا صحیح علم ہو:یعنی عالم الدین والشریعة ہو۔موجودہ دور میں عالم الدین والشریعة کسے کہاجاسکتاہے؟موجودہ دور میں عالم الدین والشریعة اسے کہاجاتاہے،جو کسی مستند ادارہ سے سند فضیلت حاصل کیاہو یا کم از کم کسی سے صحاح ستہ کی کتابیں پڑھی ہو۔ کیا ایسے شخص کو بھی عالم الدین والشریعة کہہ سکتے ہیں:جو تبلیغی جماعت میں تین دن،دس دن، چالیس دن،چار ماہ یا ایک سال وقت لگایا ہو؟ موجودہ دور میں عالم الدین والشریعة کہلانے کے لیے مدارس اسلامیہ میں کم از کم نو(9)سال کی مدت میں مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں،جن میں صحاح ستہ بھی شامل ہیں اور تبلیغی جماعت میں اتنا وقت بھی نہیں لگتا اور نہ ہی یہ سب کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ جب تبلیغی جماعت سےوابستہ اکثر افراد عالم الدین والشریعة نہیں ہوتے ہیں (کیوں کہ عالم الدین والشریعة بننے کے لیے جاں گسل محنتوں اور عظیم قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے،جو چالیس دن ،چار ماہ اور ایک سال میں ممکن نہیں ،نیز یہ کہ یہاں اساتذہ بھی نہیں ہوتے ہیں)تو کیا ایسے افراد بھی تبلیغ دین کا فریضہ کماحقہ ادا کرسکتے ہیں؟ایسے افراد تبلیغ دین کا فریضہ بالکل ادا نہیں کرسکتے ہیں؛کیوں کہ جسے خودجس چیز کا علم نہ ہو،وہ کیسے دوسروں کو اس چیز کا علم دے سکتاہے؟یہ تو بالکل عجیب سی بات ہے!!.
معاملہ جب ایسا ہے :یعنی جب ایسے افراد تبلیغ دین کا فریضہ کماحقہ ادا نہیں کرسکتے ہیں؛مگر اس کے باوجود بھی یہ لوگ تبلیغ دین کا کام کررہے ہیں،تو کیا ایسے مبلغین سے امت کو فایدہ پہنچ رہاہے یا نقصان؟
ظاہر سی بات ہے کہ ایسے افراد سے فایدہ کی امید فضول نہیں ،تو اور کیا ہے؟ اس لیے کہ جس کے پاس خود چراغ علم نہ ہو،وہ اوروں کو کیا چراغ علم عطا کرےگا؟۔
کیا موجودہ تبلیغی جماعت کے امیرحضرت مولانا محمد سعد صاحب بھی عالم نہیں ہیں ؟حضرت مولانا محمد سعد صاحب تو عالم ہیں ؛مگر ان کی بعض باتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھیں بھی قرآن وسنت کا صحیح علم نہیں ہے؛کیوں کہ ان کی بعض باتیں بالکل قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔ ان ہی بعض باتوں میں سے ایک بات ،جو ان دنوں سوشل میڈیا پر گردش میں ہے کہ” دعوت الی اللہ کے بغیر خیر کے راہوں میں مال خرچ کرنا خلاف سنت ہے”۔
حضرت امیر جماعت مولانا محمد سعد صاحب کی یہ بات:یعنی "دعوت الی اللہ کے بغیر خیر کے راہوں میں مال خرچ کرنا” قرآن کے خلاف کیسے ہے؟ وہ بایں طور کہ اللہ کا ارشاد ہے : من جاء بالحسنة فله عشر امثالها.ترجمہ :جو ایک نیک عمل کرے گا ،اللہ اسے اس جیسی دس نیکیاں عطا کرے گا:یعنی اگر کوئی خیر کے کاموں میں ایک روپے خرچ کرے گا،تو اللہ اسے دس عطا کرے گا۔ اس میں تو دعوت کی کوئی قید نہیں ہے اور پھر یہ کہ یہ کام اگر غلط ہوتا تو کیا اللہ اس پر اجر ہی دینے کا وعدہ کرتا ؟اور اس کے کرنے کی ترغیب ہی دیتا؟ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا:ان الله لايضيع أجر المحسنين. ترجمہ : بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نیک کام کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا:یعنی اگر کوئی خیر کے راہوں میں مال خرچ کرے گا ،تو اللہ اسے اس کا اجر ضرور دیں گے،اس میں بھی دعوت کی کوئی قید نہیں ہے اور پھر یہ کہ، یہاں بھی اللہ کی طرف سے خیر کے کاموں میں مال خرچ کرنے ترغیب ہے ،تو (نعوذ باللہ)کیا اللہ بھی غلط کام کے کرنے کی ترغیب دے رہاہے؟ جس غلط کی نشان دہی حضرت مولانا محمد سعد صاحب کررہے ہیں ؟
حضرت مولانا محمد سعد صاحب کی یہ بات حدیث کے بھی خلاف ہے،وہ بایں طور کہ حدیث پاک ہے: عن أبي هريرة – رضي الله عنه – أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: ((إذا أحسن أحدكم إسلامه، فكل حسنة يعملها تكتب له بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف، وكل سيئة يعملها تكتب له بمثلها))؛ متفق عليه. ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے (یعنی نفاق اور ریا سے پاک کرلے) تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے (جتنا کہ اس نے کیا ہے) ۔ اس حدیث پاک میں بھی دعوت کی کوئی قید نہیں ہے اور اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خیر کے کاموں میں ایک روپے خرچ کرے گا،تو اللہ اسے دس سے لے کر سات سو گنا تک اجر دیں گا،اگر نیک کاموں میں خرچ کرنا غلط ہوتا ،تو کیا اللہ کے رسول بھی اجر ہی بات کرتے؟
پس اب معلوم یہ ہوا کہ مولانا محمد سعد صاحب کی بات بالکل قرآن وسنت کے خلاف ہے اور مولانا سعد صاحب کو بھی قرآن وسنت کا صحیح علم نہیں ہے۔
جب معاملہ یہ ہے: یعنی موجودہ تبلیغی جماعت سے وابستہ اکثر افراد چراغ علم سے محروم ہیں اور تبلیغ دین کا کام چراغ علم والوں کا ہے،تو علم سے عاری مبلغین کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ علماء کرام سے علوم دینیہ حاصل کرلیں ،پھر شوق سے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیں!
اور اکابر علماء سے بھی میری درخواست ہے کہ آپ حضرات اس سلسلے میں جلد کوئی مضبوط قدم اٹھائیں(کیوں کہ رسول اللہ کے حقیقی جاں نشیں آپ ہی ہیں اور” العلماء ورثة الانبیاء” کے حقیقی مصداق بھی آپ ہی ہیں) تاکہ تبلیغ دین کی آڑ میں کوئی قرآن وسنت میں تحریف نہ کرسکے؛ورنہ امت جلد تباہی کے دہانے پر جاسکتی ہے۔
تحریر: انوار الحق قاسمی