اختر سلطان اصلاحی
ان کا نام تو کچھ اور تھا مگر محلے اور گاوں کا ہر آدمی انھیں ادھارو بھائی یا ادھارو چچا ہی کہہ کر بلاتا تھا. عمر جیسے جیسے بڑھتی جارہی تھی اب بہت سے بچے انھیں ادھارو دادا بھی کہنے لگے تھے. ایک دن جب ادھارو چچا ہمارے گھر سے چاے پی کر جانے لگے تو اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ ادھارو چچا یہ کیسا نام ہے؟ یہ نام تو نہیں ہوگا، نام تو کچھ اور ہوگا. بہت سوچا کہ ان کو کیوں ادھارو چچا کہتے ہیں.مگر سمجھ میں نہ آیا، آخر ہم نے دادی سے پوچھا
"دادی! ادھارو چچا کا اصلی نام کیا ہے؟ کیا ان کا نام ادھارو ہی ہے.،،
دادی میرا سوال سن کر ہنسنے لگیں، بولیں :
” عابد میاں! ادھارو پدھارو بھی کوئی نام ہوتا ہے، اس کا اصلی نام خرم شہزاد تھا. یہ نام اس کے والد شہزاد صاحب نے بڑی محبت سے رکھا تھا مگر خرم کے اندر بچپن سے ہی ایک گندی عادت پیدا ہوگئی، جب یہ اسکول جانے لگا تو گھر سے اسے ایک دو روپے جیب خرچ بھی ملتے تھے مگر خرم بہت چٹور اور لالچی تھا وہ دوکاندار سے بھی کچھ سامان ادھار لے لیتا. اسی طرح وہ اپنے کلاس کے ساتھیوں سے بھی ادھار لینے لگا. جب اسے کہیں سے کچھ رقم ملتی تو وہ دوکاندار کے کچھ پیسے واپس کرتا، اپنے ساتھیوں کی ادھار لی گئی رقم تو وہ شائد ہی کبھی واپس کرتا. اس کے ساتھیوں نے اسے ادھار رقم دینی بند کردی. ایک دن دوکاندار خرم کے گھر آگیا اس کے ڈیرھ سو روپے باقی تھے. اس زمانے میں ڈیڑھ سو روپے ایک بڑی رقم تھی. خرم کے ابو اور امی نے جب یہ بات سنی تو انھیں حیرت بھی ہوئی اور خراب بھی لگا.
خرم کے ابو تو اس کی پٹائی کرنا چاہتے تھے مگر اس کی امی آڑے اگئیں، کہنے لگیں بچہ ہے، ناسمجھ ہے، میں اسے سمجھادوں گی تو پھر کبھی قرض اور ادھار نہ لے گا.
امی نے رات میں خرم کو سمجھایا
"بیٹا قرض اور ادھار لینا کوئی اچھی عادت نہیں ہے. آدمی کو بہت مجبوری میں کسی سے کوئی چیز ادھار لینی چاہیے، ادھار لینے سے برکت ختم ہوجاتی ہے. ادھار لینے والا ہمیشہ پریشان رہتا ہے. اگر وہ ادھار لی گئی رقم وقت پر واپس نہیں دے پاتا تو اس کی عزت بھی ختم ہوجاتی ہے. کچھ دنوں بعد لوگ اسے ادھار دینا بھی بند کردیتے ہیں.پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ قرض سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے. آپ مقروض (قرض لینے والا) کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھاتے تھے ،،
خرم جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ان کی ادھار لینے کی عادت بھی بڑی ہوگئی. ہر آدمی کے وہ مقروض تھے. محلے کا دوکاندار، دودھ بیچنے والا گوالا، سبزی بیچنے والی چاچی، غلہ کا بیوپاری بانکے لال، کپڑا بیچنے والے حاجی علمدار صاحب،غرضیکہ ہر آدمی سے انھوں نے قرض لے رکھا تھا. ایک دن جب کہ وہ کرانے کی دوکان کی طرف آرہے تھے، کرانہ اسٹور کے مالک نے وہاں بیٹھے لوگوں سے کہا؛
"دیکھو وہ خرم چچا آرہے ہیں، ہمیشہ ادھار سامان لیتے ہیں اور کیا مجال کہ ادھار رقم واپس کریں، ان کا نام تو ادھارو چچا رکھ دینا چاہیے.،،
کرانہ مالک کی بات لوگ لے اڑے، دھیرے دھیرے لوگ خرم بھائی کے بجاے انھیں ادھارو یا ادھارو چچا کہنے لگے، اب تو سب لوگ ان کا نام بھی بھول گئے وہ بس ادھارو چچا ہوگئے.
دادی خاموش ہوئیں تو میں نے پھر پوچھا؛
اب تو کوئی ادھارو چچا کو ادھار نہیں دیتا ہوگا.،،؟
دادی پھر مسکرائیں اور بولیں :
"ادھارو چچا ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر تھے، ہمیشہ وہ بینک سے قرض لینے کی تدبیریں کرتے. جب دیکھو کسی نا کسی نام پر قرض لیتے. ہاوس لون، کارلون، میڈیکل لون، میریج لون، حج لون، انھوں نے اتنے قرض لیے کہ اب ان کی تن خواہ سے ان قرضوں کی قسطیں بھی ادا کرنا ممکن نہ رہا. اخیر میں چند سال وہ ہیڈماسٹر بھی تھے، اس پیریڈ مین انھوں نے خوب کھیل کھیلے، اساتذہ سے کہتے کہ بینک سے لون لے کر مجھے دے دو، اساتذہ ان کے دباو میں آجاتے، تقریبا سات آٹھ اساتذہ سے انھوں نے پندرہ بیس لاکھ روپے قرض لے لیے. جب ادھارو ریٹائر ہونے لگے تو یہ اساتذہ بہت پریشان ہوے مگر کیا کرسکتے تھے، ابھی تک وہ اساتذہ آے دن ادھارو کے گھر آتے رہتے ہیں، ادھارو کبھی کبھار کسی کو دوچار ہزار دے دیتے ہیں بقیہ کو ٹہلاتے رہتے ہیں دیکھو یہ سلسلہ کب تک چلتا ہے. ادھارو کی ایک کار بھی بینک والے کھنیچ کر لے چکے، مہاڈ شہر میں ان کا ایک فلیٹ تھا اس پر بھی بینک نے تالا لگا دیا ہے، کئی مہینے تک اسٹیٹ بینک میں ڈیفالٹر کے طور پر ادھارو چچا کی تصویر لگی رہی مگر ان پر کوئی اثر نہیں، الٹے بینک کی تصویر کا کوئی ذکر کرتا تو کہتے گھبراو نہیں دھیرے دھیرے شہر کی ہر دیوار پر میری تصویر ہوگی.
دادی خاموش ہوگئیں اور میں ادھارو چچا کے بارے میں سوچنے لگا. آدمی اگر اپنی چادر دیکھ کر پاوں پھیلاے تو کبھی ایسی نوبت نہ آے. پورے محلے میں کوئی بھی ادھارو چچا کا نام عزت سے نہ لیتا تھا.