عملی شکر سب سے زیادہ اہم ہے
شکر کا مقصد صرف زبان سے’’خدایا تیرا شکر‘‘ کہنا اور سجدہ شکر بجا لانانہیں ہے۔ نعمت کا شکرانہ ہے کہ انسان نعمت کو پہچانے۔ اُسے چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ یہ نعمت خداوندِ عالم نے اسے عطا کی ہے، لہٰذا اس نعمت سے ایسا استفادہ اور سلوک اختیار کرے جو خدا کی مرضی و پسند کے عین مطابق ہو۔ یہ ہے نعمت کے شکرانے کا مفہوم۔
اگر زبان سے تو ’’شُکْراً لِلّٰہ‘‘ کہیں لیکن آپ کا دل میرے ان بیان کردہ مفاہیم سے نا آشنا ہو تو یہ شکر نہیں ہے۔ شادی بھی خداوند عالم کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور ہدیہ ہے۔ خداوند متعال نے بہترین شریکِ حیات یا شریکہ حیات آپ کو دی ہے۔ پس آپ کو چاہیے کہ اس نعمت کا کماحقہ شکر بجالائیں۔
زندگی کے رازوں کی حفاظت کیجئے
شوہر اور بیوی دونوں کو چاہیے کہ اپنی زندگی کے اسرار کی حفاظت کریں۔ نہ بیوی اپنے شوہر کے رازوں کو کسی کے سامنے اِفشا کرے، اسی طرح مرد بھی مثلاً اپنے دوستوں میں، کسی کلب یا دعوت میں اپنی بیوی سے متعلق باتوں کو بیان نہ کرے۔ آپ ان باتوں کا مکمل خیال رکھیے اور راز اور ذاتی باتوں کی حفاظت کیجئے تاکہ ان شاء اللہ آپ کی زندگی مستحکم اور شیریں ہوسکے۔
ایک دوسرے کے غمخوار بنئے
ایک دوسرے کی حقیقی مدد یہ ہے کہ دو انسان ایک دوسرے کے دلوں سے غموں کے بھاری بوجھ کو دور کریں۔ ہر ایک اپنی زندگی میں ایک خاص قسم کے مسائل میں گرفتار اور مشکل میں پھنسا رہتا ہے اور ممکن ہے کہ کسی قسم کے شک و تردید کا شکار ہوجائے۔ یہ اُس کے جیون ساتھی کا فرض ہے کہ ایسے نازک موقع پر اپنے ساتھی کی مدد کے لیے جلدی کرے اور اُس کا ہاتھ تھامے، غم و اندوہ کو اس کے دل سے دور کرکے اس کی راہنمائی کرے اور اس کے شک و شبہ کو دور اور غلطی کی اصلاح کرے۔
سادہ زندگی اور میانہ روی
آپ سادہ زندگی گزاریے۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ ہم بہت زیادہ زہد و تقویٰ کے مالک نہیں ہیں لہٰذا اُس میں آخری درجے کے زہد و تقویٰ کا تصور نہ کیجئے۔ وہ سادہ زندگی جس کی ہم بات کررہے ہیں وہ زاہد و عابد افراد کے زہد و تقویٰ کے تصور سے بہت مختلف ہے۔ یہ سادگی، لوگوں کی عام روز مرّہ زندگی کے امور سے متعلق ہے۔ وہ سادگی جو ہم نے اختیارکی ہے اگر خدا کے مقرب بندے اسے دیکھیں تو شاید ہماری سادگی کے مفہوم پر ہزاروں اعتراضات کریں۔
کوشش کیجئے کہ آپ کی زندگی اسراف و فضول خرچی کی بنیادوں پر قائم نہ ہو اور آپ اپنی زندگی کو سادہ بنائیں۔ اپنی زندگی کو خداوند متعال کی پسند کے مطابق گزاریے اور طیّباتِ الٰہی (خدا کی پسندیدہ اور پاک و پاکیزہ چیزوں) سے بہرہ مند ہوں لیکن اعتدال اور میانہ رویےکے ساتھ۔ اعتدال بھی ضروری ہے، میانہ روی بھی اور عدالت بھی۔ اپنی زندگی میں انصاف کو حاکم بنائیے اور دیکھئے کہ دوسرے کیسی زندگی گزاررہے ہیں۔ اپنے اور دوسروں کے درمیان زیادہ فاصلہ ایجاد نہ کیجئے۔
مختلف افراد اور خاندانوں کی سعادت کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ بے جا اور فضول قسم کے قوانین، خیالی شان و شوکت اور اسٹیٹس والی زندگی سے دوری اختیار کی جائے اور مادی امور کو حدّ لازم سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے اور نہ ہی انہیں اپنے سر پر سوار کیا جائے۔ یا کم سے کم یہ کوشش ہونی چاہیے کہ یہ اوپر کے خرچے اور غیر اضافی خریداری اور غیر ضروری لوازمِ زندگی آپ کی اصلی (اور روز مرّہ) زندگی کا حصّہ شمار نہ ہوں بلکہ وہ ایک ’’طرف‘‘ (جانبی) اور سائیڈ کی چیز ہوں۔ زندگی کی بنیاد کو ابتداہی سے سادگی کے ساتھ اٹھانا چاہیے اور زندگی کی فضا ایسی فضا ہو جو (افرادِ خانہ کے لئے) قابلِ تحمل ہو۔ سادہ زندگی گزارنا رفاہ اور آسائش سے منافات نہیں رکھتا ہے۔ آسائش بھی درحقیقت سادہ زندگی گزارنے کے سائے میں ہی حاصل ہوتی ہے ۔
ہار جیت کے بغیر مقابلہ
خود کو ہوس و رقیب بازی، فضول خرچی اور مادی زرق و برق کا اسیر نہیں بنائیے اور کوشش کیجئے کہ زندگی میں مادّیت کی دوڑ میں شریک نہ ہوں۔ کوئی بھی اِس دوڑ میں خوش بخت اور کامیاب نہیں ہوسکتا۔ زندگی کی یہ ظاہری زرق و برق اور چمک دمک کسی بھی انسان کو نہ تو خوش بخت کرتی ہے اور نہ ہی اُسے خوشحال اور مطمئن بناتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے ہاتھ جو کچھ آتا ہے اُس کے نتیجے میں اُس کی ہوس کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی رہتی ہے اور یوں وہ ایک بہتر سے بہتر چیز کی تلاش اور خوب سے خوب تر کی جستجو میں ہی زندگی گزاردیتا ہے۔ شریعت نے ہمیں زندگی گزارنے کا ایک اصول دیا ہے کہ ’’اَلْعِفَافُ وَاَلْکِفَافُ‘‘یعنی وہ زندگی جو آسانی سے گزاری جا سکے کہ جس میں تنگی نہ ہو اور انسان کسی کا محتاج نہ ہو۔ آپ بھی اس طرح آگے قدم بڑھائیے۔
کفایت والی زندگی!
عیش و آرام، ٹھاٹھ باٹھ، پیسے کی ریل پیل، زبردستی کے خرچے پانی، اضافی خریداری اور فضول خرچی والی زندگی انسانوں کو بد بخت بنادیتی ہے۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ زندگی آرام اور کفایت کے ساتھ گزارنی چاہیے یعنی اعتدال اور میانہ رویےکے ساتھ نہ کہ پُر خرچی اور اسراف کے ساتھ۔ ان چند چیزوں کو بعض افراد باہم ملا کر کیوں غلطی کرتے ہیں۔
کفایت والی زندگی اور کافی زندگی کا مقصد روپے پیسے، غذا اور وسائلِ زندگی کی بہتات اور فراوانی نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان کسی کا محتاج نہ ہو اور وہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے تاکہ وہ ضروریاتِ زندگی کے لیے اپنے پاس موجود کافی مقدار میں وسائل زندگی سے اپنی زندگی چلا سکے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہنسی خوشی اور قناعت کا مالک .بھی ہو و اِلَّا زیادہ درآمد و تنخواہ، اوپر کے اخراجات اور ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی اچھی اور خوشحال نہیں ہوسکتی۔ یہ چیزیں کسی بھی صورت میں انسان کو حقیقی آرام اور خوشحالی نہیں دے سکتیں ہیں۔
زندگی کو سادہ انداز سے گزارئیے اور جتنی بھی اس راہ میں کوشش کرسکتے ہیں، کیجئے۔ البتہ ہماری مراد ہر گزیہ نہیں ہے کہ گھر کے مرد حضرات اور سر پرست خشک اور زور زبردستی کے زہد و تقویٰ کے ذریعے اپنے اہل و عیال اور نزدیکی افراد پر سخت گیری کریں اور وہ تنگی میں زندگی گزاریں۔ ہماری ہر گز یہ مراد نہیں ہے بلکہ ہماری خواہش یہ ہے کہ معاشرے کے تمام افراد اپنے عقیدے، ایمان و عشق اور دل کی رضایت و خوشی سے ایک حدپر قانع رہیں۔
کتنا ہی بہتر ہو کہ آپ کی زندگی سادہ ہو اور آپ خود کو اسٹیٹس (نام نہاد حیثیت و آبرو )اور زندگی کی زرق و برق کا اسیر نہ بنائیں۔ اگر آپ اس اسٹیٹس کی دوڑ میں شریک ہوگئے تو اسے چھوڑنا سخت ہوگا۔ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس زمانے میں سادہ زندگی گزارے تو وہ یہ کام کرسکتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ کام سخت اور مشکل تھا۔ اگر چہ کہ بعض افراد اپنے ہی ہاتھوں اس کام کو مشکل بناتے ہیں۔ اپنے لباس، خوراک، مسکن، اسٹیٹس اور دنیاوی زرق و برق کواپنے اوپر اس حد تک سوار کرلیتے ہیں کہ اُسے آسان بنانا دشوار ہوجاتا ہے۔
قناعت سب کے لیے مفید ہے
میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ ہم، آپ کو حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابوذر کے زہد کی طرف دعوت نہیں دے رہے ہیں۔ ہم، آپ اور سلمان و ابوذر میں بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ ہم میں ہر گز اس بات کی طاقت نہیں ہے کہ ان درجات، بلندیوں اور اعلیٰ مقامات تک پہنچیں یا فرض کریں اور آسانی سے دل میں ان مقامات کی آرزو کریں۔ لیکن آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں کہ اگر ہمارے اور اُن کی زندگی کے درمیان ہزار درجات کا فاصلہ ہے تو اُس فاصلے کو ١٠ درجات، ٢٠درجات اور ١٠٠ درجات سے کم کیا جاسکتا ہے اور اس طرح ہم خود کو اُن کی زندگی کے نزدیک کرسکتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ قناعت کریں اور قناعت کرنے سے ہر گز شرم محسوس نہ کریں۔
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قناعت کرنا صرف فقیر، خالی ہاتھ اور بے چا رے افراد کا کام ہے اور اگر آدمی کے پاس مال و دولت ہے تو وہ دل کھول کر خرچ کرے اور اُسے قناعت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ غلط خیال ہے! آپ کو زندگی اور اُس کے وسائل کی جتنی ضرورت ہے فقط اُسے ہی استعمال میں لائیے، صرف لازمی حدتک ، نہ فضول خرچی کی حد تک۔ کفایت کی حد تک وسائل زندگی استعمال کریں کہ جو انسان کی ضروریات اور اُس کی حاجات کا جواب دینے کے لیے کافی ہو، یعنی انسان کسی کا محتاج نہ ہو۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو توقف کرنا چاہیے۔
زندگی سے بے جا اُمیدیں، غیر ضروری اور زیادہ توقعات وابستہ کرنا در حقیقت انسان کی معاشی تنگی اور خود انسان کی اپنی پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی سے توقع اور امیدیں کم رکھے تو یہ اس کی سعادت کا باعث ہوگی۔ یہ صرف انسان کی آخرت کیلئے ہی اچھی اور سود مند نہیں بلکہ اُس کی دنیا کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
آپ کی پوری کوشش اس بات پر ہونی چاہیے کہ شان و شوکت میں آگے بڑھنے اور اسٹیٹس کی دوڑ سے دور رہ کر سادہ زندگی گزاریں۔ اور وہ ایسی زندگی ہو کہ جو معاشرے کے متوسط طبقے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس بارے میں معاشرے کا نچلا طبقہ آپ کے مدِّنظر ہو، نہیں! بلکہ آپ متوسط طبقے کو دیکھئے لیکن آپ مادیت کی دوڑ کو اہمیت و توجہ نہ دیں۔ ٹھیک ہے کہ ہر جگہ ایک مقابلہ اور دوڑ لگی ہوئی ہے۔ جس طرح خدا کی جنّت کی راہ میں دوڑ لگی ہوئی ہے اسی طرح دنیا کی خیالی جنت کیلئے بھی مقابلہ جاری ہے، اس کی زرق و برق اور شان و شوکت، مقام و قدرت اور شہرت طلبی کیلئے بھی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سب اس مقابلے میں شریک ہیں لیکن یہ مقابلہ صحیح نہیں ہے۔ آپ میں سے جو بھی مادہ پرستی اور مادیّت کی دوڑ میں شریک ہو تو اس کا جیون ساتھی اسے (پیار ومحبت سے)منع کرے اور ایک ناصح کی طرح اس سے برتاؤ کرے۔ بہرحال انسان کو چاہیے کہ زندگی کے تمام مراحل میں میانہ روی، قناعت متواضعانہ اور سادہ طریقہ زندگی کو فراموش نہ کرے اور یہی اسلام کی نظر ہے۔
شادی کی تقریب سے آغاز کریں
آپ کو چاہیے کہ زندگی کے تمام امور میں سادگی کو اپنائیں اور اس کی ابتدا شادی کی تقریبات سے ہونی چاہیے کیونکہ ساری چیزیں یہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ اگر شادی کی تقریبات، سادہ منعقد ہوں تو آنے والے دوسرے اقدامات بھی سادہ ہی ہوں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا اور آپ نے عیاش، فضول خرچ اور اسراف پسند متمول افراد کی طرح شادی کی تقریبات منعقد کیں تو آپ بعد میں ایک چھوٹے سے گھر جاکر مختصر سے وسائلِ زندگی کے ساتھ زندگی گزارنے پر قادر نہیں ہوں گے۔ بعد میں ایسا نہیں ہوسکے گا کیونکہ ازدواجی زندگی کی ابتدا اور بنیاد ہی خراب ہوچکی ہے اور وہ وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
آپ کو چاہیے کہ زندگی کو سادہ زیستی اور سادگی پر کھڑا کریں تاکہ یہ زندگی خود آپ پر، آپ کے اہل و عیال، عزیز واقارب اور معاشرے کے افراد کے لیے آسان ہو، ان شاء اللہ۔
اپنے والدین کا بھی خیال رکھیے
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے میں اسٹیٹس (نام نہاد حیثیت و عزت) کی اِ س دوڑ نے شادی کی پُرخرچ محفلوں(مہندی، مایوں اور چوتھی کی اسراف سے ) پُر اور غیر ضروری تقریبات(ا) ، آسمان سے باتیں کرتی ہوئیں مہر کی رقموں، جہیز کی لمبی لمبی لسٹوں اور بڑے بڑے شاندار ہوٹلوں اور شادیہالوں میں شادیوں نے معاشرے کے اخلاق کو بہت بگاڑ دیا ہے!
آپ بیٹے اور بیٹیاں جو داماد اور بہو بن رہے ہیں آپ کو چاہیے کہ اس بُت کو گرانے کیلئے پہلا قدم آپ اٹھائیں۔ آپ کہیے کہ ہمیں ایسی شادی اور ایسی تقریبات نہیں چاہیے اور ہمیں اس جہیز کی بہتات، اسراف والی تقریبات اور بڑے بڑے اور شاندار ہوٹلوں میں شادیوں اور فنکشنوںکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب معاشرہ مشکل اور سختی میں ہوا اور جب اُس پر فقر کی بدحالی سایہ فگن ہو تو انسان کودوسروںکی صورتحال پر توجہ کرنی چاہیے۔
ہم شادی کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں کو اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ والدین سے اصرار اور ضد و بحث نہ کریں، اُن سے زیادہ نہ چاہیں اور ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی خواہشات کے دباؤ میں آکر شرما حضوری سے کام لیں اور قرضوں تلے دب جائیں۔
میں اور آپ، سب کو چاہئے ان چیز کو دور پھینکیں۔ شادی درحقیقت صرف ایک مقدس ترین انسانی رشتے کا ملاپ ہے۔ یہ ملاپ کیوں اور کس لیے ہے؟ دونوجوانوں کا مل کر گھر بسانا اور نئی زندگی بسر کرنا۔ یہ دنیاکا سب سے زیادہ انسانیت والا کام ہے لہٰذا اسے مادی اور پیسے والا نہ بنائیے۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اُسے ان خواہشات، رسومات اور روایات سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اگر شادیکرنے والے لڑکے اور لڑکیاں اہلِ قناعت اور سادہ زندگی کے حامی ہوں تو گھر و خاندان کے بڑے بھی ان کی پیروی کرنے میں مجبور ہوجاتے ہیں۔
حجاب اور عفّت
اسلام، حجاب اور پردے کے بارے میں دستور رکھتا ہے۔ قرآن نے حجاب کے بارے میں حدود و قوانین کو بیان کرتے ہوئے اور مرد اور عورت دونوں کے لیے الگ الگ حکم صادر کیے ہیں۔ یہ سب احکامات خودلوگوں ہی کیلئے ہیں اور صرف اس لیے ہیں کہ گھر آباد، خوشحال اور گھروالے خوش بخت ہوں۔ یہ نوجوان دلہنیں جو کسی بھی صورت میں اپنے شوہروں کا ہاتھ چھوڑنا نہیں چاہتی ہیں اور یہ نوجوان لڑکے جو اپنی محبوب شریکہ حیات کی جدائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے ،چنانچہ یہ کام حجاب کی حدود اور اس کے قوانین کا لحاظ کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ قرآنی آیات اس طرح کی حکمت و دانائی سے بھر پور اور گہری ہیں۔
یہ محرم و نامحرم کے مسائل، حجاب و پردے اور عورت کی حفاظت یہ سب کس کے لیے ہے؟ یہ قرآنی حکم’’قُلْ لِلْمُوْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبصَارِھِم وَ یَحْفَظُوْا فُرُوجَھُمْ ۔۔۔وَقُلْ لِلْمُوْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ‘‘ (۲)۔(اے رسولﷺ آپ مومن مرد اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظت کریں) ہر چیز کیلئے اپنی آنکھیں نہ کھولو اور ہر چیز پر نگاہ نہ ڈالو۔ یہ اس لیے ہے کہ میاں بیوی آپس میں مہربان اور وفادار رہیں۔
وہ مرد اور عورت جو دنیا کے بد ترین معاشروں میں اپنی خواہشاتِ نفس پر عمل کرتے ہوں، ہر بُرا راستہ انہوں نے طے کیا ہو، جس طرح اُن کے دل نے کہا بُرائی انجام دی ہو اور جس سے بھی چاہا اس سے تعلق قائم کرچکے ہوں تو اب اُن کیلئے گھرانے کی پُر محبت فضا کی کیا اہمیت ہوگی؟ کچھ بھی نہیں! اور اُن لوگوں نے ان سب کانام رکھا ہے ’’آزادی‘‘۔ اگر یہ آزادی ہے تو یہ بشریت کے لیے سب سے بڑی بلا ہے۔
وہ مرد جو اپنی خواہشات کے مطابق جس خاتون سے چاہے لذّت اٹھائے تو اُس کی نہ کوئی لگام ہے اور نہ وہ کسی حدود اور قانون کا پاس رکھتا ہے اور وہ عورت جو حیا، عفّت اور حجاب سے آراستہ نہ ہو تو اُس کی بھی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایسے مرد و عورت اپنی بیویوں اور شوہروں کیلئے کسی قسم کے بھی احترم و اہمیت کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن اسلام کے ازدواجی نظام میں میاں بیوی ایک دوسرے کی نسبت ذمے دار، جوابدہ اور ایک دوسرے کو پسند کرنے والے ہیں۔ جہاں وہ ایک دوسرے کے ضرورت مند ہیں اور ان کا وجود ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ اسلام میں ان قوانین کا عظیم اور طولانی سلسلہ کس لیے ہے؟ اس لیے کہ ایک خاندان کی بنیادیں مستحکم ہوں، میاں بیوی ایک دوسرے سے خیانت نہ کریں اور ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں۔
حوالہ جات
۱۔ مختلف خاندانوں کے مختلف آداب و رسومات نے بھی اجتماعی اخلاق کو بگاڑنے اور شادی جیسے مقدس امر کو مشکل بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ہے۔ کہیں بھات کی رسم ہے تو کہیں نیگ و سلامی کی اور اسی طرح کی مختلف رسمیں کہ جن کی وجہ سے متوسط گھرانے کے والدین سالہا سال قرضوں میں دبے رہتے ہیں۔ لڑکیوں کی عمریں نکلی جارہی ہیں اور والدین اس دن کی اُمید میں آس لگائے بیٹھے ہیں کہ جب اُن کی لڑکی کے ہاتھ پیلے ہوں اور وہ اپنی زندگی کا آغاز کریں۔ سادہ شادی ہی اس کا واحد علاج ہے۔ آئیے اپنی خواہشات کو قربان کرکے معاشرے میں سادی شادیوں کی بنیاد رکھ کر اس ثوابِ جاریہ کا آغاز کریں۔(مترجم)
۲۔ سورہ نور آیت ٣١ ۔٣٢، اس میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نگاہوں میں سے کچھ نگاہوں کو (جو حرام و شبہات کی طرف اُٹھتی ہوں)نیچی رکھیں نہ کہ ہروقت آنکھوں کو بند.
مصنف:سیّد علی حسینی خامنہ ای