یہ دنیا بنی نوع انسانی کےلیے دارالامتحان ہے، اس دنیا میں ہر انسان آتا اور ایک متعینہ وقت تک اپنی زندگی گزارتا ہے، اور پھر اس عالمِ فانی سے کوچ کرکے ابد الآباد والی زندگی گزارنے کےلیے اپنے ربِ کریم کے پاس چلا جاتا ہے، اس دوران بنی آدم پر پروردگار عالم کی جانب سے نوازشات بھی ہوتی ہیں، مختلف قسم کے انعامات سے نوازا جاتا ہے، اولاد کو عطا کرکے، مال و متاع میں فراوانی کرکے، زیب و زینت دے کر، جاہ و حشم دے کر، اور اسی کے ساتھ ہر انسان کے ساتھ حزن و الم، دکھ درد اس کے سامنے سمو دۓ گۓ ہیں، جس سے کسی کو مجال انکار نہیں ہے، ہر ایک کو کسی نہ کسی طرح کا غم لاحق ہے؛ گویا یوں سمجھیں کہ بنی نوع انسانی پر غم و اندوہ کے اژدہے حملہ آور ہورہے ہیں، اور وہ ان کے جاں لیوا زہر سے جان بلب ہے، اس غم کی بیماری نے انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رکھا ہے، دائیں بائیں دیکھیے ہر طرف مصیبت زدہ دکھائی دیں گے ہر گھر میں ہنگامہ برپا ہے، ہر رخسار پر آنسو ہے، ہر آنگن میں ماتم بپا ہے، کتنے المیے اور کتنی مصیبتیں ہیں، مصیبت زدہ آپ تنہا نہیں ہیں ؛ بلکہ دوسروں کے مصائب کے مقابلے میں آپ کی مصیبتیں ہیچ ہیں، کتنے ہی مریض ہیں جو سالہا سال سے بستر پر کروٹ بدلتے ہیں، درد سے کراہتے رہتے ہیں، شفایاب نہیں ہوتے، کتنے جیلوں میں بند ہیں سالوں سے انہوں نے سورج کی روشنی نہیں دیکھی جیل خانے کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے، کتنی عورتیں ایسی ہیں جن کے جگر کے ٹکڑے نوخیزی اور عنفوانِ شباب میں چھن گے، کتنے ہیں جو پریشان ہیں، مقروض ہیں، گھروں سے بے گھر ہیں، چند لوگ ایسے بھی ہیں جو بےروزگار ہیں، جن کی بے روزگاری کے نتیجے میں ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کی سسکتی بلکتی ہوئی آوازیں گھر کے باہر کے لوگوں تک کو متوجہ کرتی ہیں، آخر ان غموں کی دنیا میں انسان کیوں گھر کر رہ جاتا ہے، تو سنتے چلے! اس غموں کی دنیا میں انسان اس وقت جاں گزیں ہوتا ہے جب انسان اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے دور ہوجاتا ہے،اور ان کی تعلیمات کو طاقِ نسیاں کردیتا ہے، اور ان سے رشتہ، ناطہ توڑ لیتا ہے، اور تخلیقِ انسانی کے بنیادی مقصد”عبادتِ خداوندی” کو فراموش کردیتا ہے، شریعتِ مصطفویﷺ کی روشنی سے منہ موڑ لیتا ہے، تو غم و اندوہ کے اژدھے اس پر یکبارگی حملہ آور ہوجاتے ہیں، اور اس کو شدید زخمی کرکے چھوڑ دیتے ہیں، یاد رکھیں! غم جہاں آخرت سے غافل اور دنیا کے متلاشی بندوں پر حملہ آور ہوتا ہے، ایسے ہی اللہ کے ولیوں، دُرویشوں اور عبادت گزار و خلوت نشینی اختیار کرنے والے بندوں پر بھی اثر اندوز ہوتا ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ اللہ کی نافرمانی کریں یا کوئی گناہ ان سے سرزد ہوجائیں؛ لیکن بعض اوقات یہ غم اللہ کے خاص بندوں پر محض اللہ کی طرف سے آزمائش کے طور پر ہوتا ہے تاکہ اللہ تعالی ان کے اس غم پر صبر کرنے کے نتیجے میں درجات کو بلند کریں ، اور یہ بات بلکل واضح اور عیاں ہے کہ جس کی طرف سے جو رنج و غم اور تکالیف پہنچتی ہیں اس کے ازالے کیلے اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے؛ مگر افسوس کہ اپنوں کی غفلت شعاری کہیے یا اغیار کی چال بازی و مکاری، شعوری و لاشعوری کے نام پر بنی آدم کو حکم خداوندی ولاتتبعوا خطوات الشیطان کی خلاف ورزی کرنے پر مجبور کرتے ہوۓ غموں کے مواقع پر رجوع الی اللہ ہونے کے بجاۓ شیطان کے قدم بہ قدم چلانے لگتے ہیں، مختلف ذرائع و طرق سے معصیت و گناہ کے ارتکاب کو ہی غم اور حزن و ملال کا شافعی علاج سمجھتے ہیں؛لیکن خوب سمجھ لو کہ یہ محض سراسر شیطانی دھوکہ ہے کیونکہ اس طرح تو انسان مزید غموں کے بھنور میں گھر کر رہ جاتا ہے، ایسے تکلیف دہ مراحل میں کتنے ہی نادان انسان غموں کے دفعیہ اور تدارک کیلے شیطانی ہتھکنڈوں کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں، بعض نادان غموں کو رفع کرنے کیلے مال و دولت کا ناجائز ذرائع سے حصول اور خرچ ہی اس کا علاج سمجھتے ہیں ، کچھ تو غموں کو بھلانے اور دفع کرنے کیلے شراب پینے اور منشیات کے بے دریغ استعمال کو غموں سے خلاصی کا باعث سمجھتے ہیں، بعض لوگ غموں کو ہلکا کرنے کیلے صنف نازک کی پلکوں اور زلفوں کی چھاؤں میں عافیت تلاش کرتے ہوۓ بدکاری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب طریقے شیطان کی پیروی کی طرف اور غموں کی دلدل میں مزید دھنسنے کی طرف لے جاتے ہیں۔ رنج و غم، دکھ، درد اللہ کے نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ پر بھی آۓ لیکن انہوں صبر و تحمل سے کام لیا، اور ہر حالت میں اللہ کی طرف رجوع کیا، اللہ کے نبیﷺ کے چچا ابوطالب اور بیوی حضرت خدیجة الکبریؓ کا انتقال یکے بعد دیگرے چند ہی دن کے فاصلے سے ہوگیا، اس سے بڑا صدمہ اور کیا ہوسکتا ہے، اس سے بڑا رنج و غم کیا ہوسکتا ہے؛ لیکن اللہ کے نبیﷺ نے ان حالات میں صبر و تحمل سے کام لیا، اور ایسے مواقع پر صحابہ کو بھی ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی، کیونکہ مؤمن کی طبیعت میں ثبات قدمی، منصوبہ سازی اور جزم وعزم ہوتا ہے، اللہ تعالی ہر حالت میں ہمارے ساتھ ہیں،بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے لیکن اُسی وقت جب ہم صبر کرنے والوں میں سے ہوں، ظالموں، فاسقوں، منافقوں میں سے نہیں ! اگر اللہ کے نزدیک ہم مفسدین، مسرفین اور خائنین میں سے ہیں اور اگر ہم قرآن کریم کو مہجور بنا دینے والوں میں سے ہیں تو ہم بنی اسرائل کی طرح خواہ کتنی ہی خوش فہمی اور خام خیالی میں کیوں نہ مبتلا رہیں، اللہ جھوٹ بولنے والوں، ناپ تول میں کمی کرنے اور لین دین میں خیانت کرنے والوں، وعدہ خلافی کرنے اور اپنے عہد کی پابندی نہ کرنے والوں، صلہ رحمی کے بجائے قطع رحمی کرنے والوں اور اپنے قول و فعل کے خلا ف عمل کرنے اور اپنے علم پر خود عمل نہ کرنے والوں کو ہر گز د
وست نہیں رکھتا !
مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے آفاقی دھارے میں ہمہ دم شامل رہنے کے بجائے جھوٹ، ظلم، فساد، کرپشن تلبیس حق و باطل کے مختلف قومی اور بین ا لا قوامی دھاروں میں بہ رہے ہیں۔ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہوئے بغیر، اللہ کے آخری رسول کے اُسوہ حسنہ پر بلا چون و چرا پوری طرح عمل کیے بغیر، اور ہدایت کے لیے قرآن کو حرف آخر سمجھے بغیر اور دشمنوں سے اپنے دفاع کے لیے قرآنی اصول و ہدایات کی پوری پابندی کیے بغیر اگر ہم بنی اسرائل کی طرح مختلف خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں تو علیم و خبیر اللہ بھی ہمارے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جو اس نے بنی اسرائل کا مقدر کر رکھا ہے۔ ہم اللہ سے اس طرح نہیں ڈرتے جو ڈرنے کا حق ہے۔ نہ ہم اللہ سے اس طرح محبت کرتے ہیں جو اُس جیسے رحیم و کریم اور ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے مہربان آقا اور پالنہار سے محبت کرنے کا حق ہے۔اگر ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا جو اس نے بغیر کسی استحقاق کے ہمیں دے رکھی ہیں ہمہ وقت شکر نہیں ادا کرتے رہتے تو وہ کفران نعمت کرنے والوں کو ہر گز دوست نہیں رکھتا۔ اُدھر سے کیسی نوازشات ہورہی ہیں، اور اِدھر سے کیسی بے وفائیاں ہورہی ہیں،
گویاکہ؎
سمجھ میں کچھ نہیں آتا دنیا کا حساب الٹا
نصیحت کیجے جس کو ملتا ہے جواب الٹا
ہم جو قرآن کے منع کیے جانے کے باوجود اہل ایمان کے دائمی دشمنوں سے رشتہ ولایت استوار کرنے کی دوڑ میں لگےرہتے ہیں، اور اپنے اس کھلے ہوئے دشمن سے بچنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے، جو ہمیں فحش اور منکر کا حکم دینے اور اللہ کے خلاف جہالت کی باتوں پر اکساتے رہنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتا ، جس کے بہکانے میں آکر مفلسی کے خوف سے ہم نے بھی نام نہاد فیملی پلاننگ پر عمل کو اپنا رکھا ہے، جو از روئے قرآن قتل اولاد کے مترادف ہے، تو ہمارے ساتھ دنیا میں وہ معاملہ کیوں کر ممکن ہے جو اللہ کے فرمانبردار بندوں کا حق ہے ؟ جس میں نہ ہو احتساب، موت ہے وہ زندگی ! حکمت مؤمن کی میراث ہے جہاں سے ملے حاصل کر لینا چاہیے اور غلبہ مؤمن کا حق ہے؛ لیکن یہ حق ایمان سے مشروط ہے۔ وہ ایمان جو کلمہ توحید و رسالت کے دلوں میں راسخ ہوجانے اور قرآن و اسوہ نبی ﷺ کے کردار میں ڈھل جانے سے پیدا ہوتا ہے۔ ہم صرف مانگنے والے اور چیخنے چلانے والے بن کر رہ گئے ہیں۔ اپنی حیثیت، صلاحیت اور استطاعت کے مطابق انفاق فی سبیل اللہ کرنے، بندگانِ خدا کی بے لوث اور بلا تفریق خدمت کرنے کے فرائض ہم نے فراموش کر رکھے ہیں۔ جو باتیں ہمارے سمجھنے اور عمل کرنے کی تھیں اُن پر دوسرے عمل کر رہے ہیں جو مسلمان بھی نہیں۔
مختصر یہ کہ ہر حالت میں اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول والے فرمان پر عمل کرنا ضروری ہے اگر ایسا ہوگا تو یہ زندگی خوشگوار گزرے گی گویا کہ؎
جو مٹا ہے تیرے جمال پر وہ ہر ایک غم سے گزر گیا
ہوئیں جس پہ تیری نوازشیں وہ بہار بن کے سنور گیا
تحریر: محمد ریحان ورنگلی