لڑکی کی ولادت رحمت یا زحمت؟: ایک لمحۂ فکریہ

تحریر: محمد شمیم نوری مصباحی
یقیناً اولاد اللّٰہ عزوجل کی ایک عظیم نعمت ہے، لڑکا ہو یا لڑکی وہ اللّٰہ کی عطا اور رحمت ہے، اس عطا ورحمت پر  پر یشانی کا اظہار کرنا، لعن طعن کرنا ،عجیب طرح کی چہ میگوئیاں کرنا جیسا کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کسی کے یہاں لڑکی کی ولادت ہوتی ہے تو اس کو برا سمجھا جاتا ہے ،طرح طرح کی لعن طعن کی باتوں سے نوازا جاتا ہے، کاناپھوسی شروع ہوجاتی، کوئی کہتاہے "دامادمبارک!” توکوئی نوزائیدہ بچی کو مخاطب کرکے لاڈو پیار سے کہتا ہے "ہمارا یا ہمارے بھائی کا ہی گھر ملا تھا آنے کو؟” یہ اوراس طرح کی باتیں دینِ اسلام سے دوری اورنعمتِ خداوندی سے بیزاری کی نشانی ہے، محض لڑکی کی پیدائش کی وجہ سے خواہ مخواہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ شریعتِ اسلامیہ میں جس طرح نیک لڑکا باعث رحمت ہے اسی طرح لڑکی بھی باعث نعمت وخیروبرکت ہے۔
               پیغمبر انسانیت صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب میں لڑکی کی پیدائش پر مایوسی کا اظہار کیا جاتا تھا، کسی کے یہاں لڑکی کا پیدا ہونا برا شگون تصور کیا جاتا تھا ،سب کے سب لڑکی کی پیدائش سےنالاں وترساں رہا کرتے تھے، پیدائشِ دختر کو بدترین حادثہ سمجھا جاتا تھا، لڑکی کے پیدا ہوتے ہی باپ اس سوچ میں پڑ جاتا کہ کیسے اس بلا سے پنڈ چھوٹے؟ یہاں تک کہ نوزائیدہ جان کو زندہ درگور کر دینا بہتر فعل سمجھا جاتا، اس ظالمانہ و سنگدلانہ فعل پر کوئی افسوس ومذمّت محسوس کرنے والا نہ تھا -سب کے سب اس طرح کے فعل و عمل کو وجہِ افتخار سمجھتے تھے –
          جب محسن انسانیت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے یہ اعلان عرب والوں کے سامنے سنایا "قیامت کو بھول گئے جو ایسی حرکتیں کرتے ہو اس دن اس زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے تمہارے سامنے پوچھا جائے گا کہ بتا تو کس گناہ میں قتل کی گئی تھی؟ اس طرح مظلوم بچی اپنے باپ کے خلاف ایک گواہ ہوگی” تو ان کی آنکھیں کُھلیں—  قانونِ اسلام کے جاری ہوتے ہی رفتہ رفتہ یہ پرانا دستور بھی مٹتا گیا- لوگ لڑکی کی پیدائش کو برا نہ سمجھ کرکچھ حدتک اچھا سمجھنے لگے، حضور نبئِ کریم صلّی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کی تعلیمات کے نتیجہ میں لڑکی کو بھی اللّٰہ کی نعمت سمجھا جانے لگا-
           دورِ حاضر میں ہم اور آپ اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ لڑکیوں کی پیدائش پر اظہار تاسف و مایوسی اور بیزارگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ،یہ سب نادانی اور ناسمجھی کی علامتیں ہیں،اس لئے کہ لڑکیوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرنے والے، اچھے اخلاق وعادات سکھانے والے، سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد ان کا نکاح کرنے والے باپ کو حضور نبئِ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے جنت کی بشارت دی ہے جیسا کہ حدیث شریف ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: "جس کے پاس کوئی لڑکی ہو اور وہ اس کو نہ تو زندہ دفن کریے،نہ اس کو برے حال میں پڑا رہنے دے، اور نہ اپنے بیٹوں کو اس سے بڑھا چڑھا کر پیش کرے،اللّٰہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل کرے گا”۔ مشکوٰۃشریف
               اس حدیث شریف میں اس بات پر توجہ دلائی گئی ہے کہ لڑکیوں کو وبال جان نہ سمجھا جائے- ان کی پیدائش پر رنج و ملال کا اظہار نہ کیا جائے -ان کی صحیح نگرانی اور خبر گیری پر جنت کی بشارت دی گئی ہے، لہٰذا اس حدیث مبارکہ سے ہمیں اور آپ کو سبق حاصل کرنی چاہیے -لڑکی کو ذلیل و خوار نہ سمجھ کر اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کریں،صحیح تعلیم و تربیت دیں، اچھے اخلاق وعادات سکھائیں، دین کی باتیں بتائیں ، امورخانہ داری سے واقف کرائیں اور سنی بلوغت کو پہنچنے کے بعد کسی نیک وصالح نوجوان سے اس کا عقد کرادیں، تو ایسا شخص جنت کا حقدار بنے گا۔
        فی زماننا ایک سے زیادہ لڑکیوں والے اکثر سوچ و فکر میں پڑ جاتے ہیں، جہیز کا ناقابل برداشت بوجھ انہیں ہمیشہ گہری سوچ میں ڈالے رہتا ہے،مروّجہ جہیز کی بدترین بدعت کا رواج عام ہوگیا ہے،قلیل آمدنی والے والدین اپنے گھروں میں جوان بیٹیوں کو رکھ کر "نہ زندوں میں جمع ہیں نہ مُردوں میں” والی بات کے مصداق بن گئے ہیں- گویا ان کی زندگیوں میں ان سے "دن کا چین اور رات کاسکون” چھین لیا گیا اور راتوں کی نیند حرام کر دی گئی ہے- ان کو نہ تو کھانے میں مزا آتا ہے نہ پہننے میں، ہر لحظہ انہیں لڑکیوں کی شادی رچانے کا خیال رہ رہ کے  ستاتا ہے، ایسے گھناؤنے ماحول میں ایک باپ کی حالت کیسے سدھر سکتی ہے ؟اسی لئے عموماً لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جانے لگا اور اس کی پیدائش پر رنج و غم اور تردّد پایا جانے لگا- یہ مسلمانوں کی ایک ایسی گھناؤنی حرکت ہے جو نہ صرف یہ کہ خلاف سنت ہے بلکہ خلافانسانیت بھی ہے- معاشرہ میں مروّجہ جہیز کی مانگ بڑھانے والے، شادی بیاہ کے موقعوں پر بےجا اور فضول رسم و رواج پر عمل کرنے والے خود ہم اورآپ ہیں، ہم نے تعلیماتِ رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کو پس پشت ڈال دیا، ہماری زندگیوں

میں بدترین رسم و رواج اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ  ہم نے ان کو اپنی زندگی کا ایک اہم جز بنا لیا ہے- درحقیقت یہ بے جا رسومات ایک مسلمان کی زندگی میں کوڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں – جب تک ان رسومات کو دور نہیں کیا جائے گا ہماری زندگیوں میں خوشحالی نہیں آ سکتی اور نہ ہی ہمارا ایمان پنپ سکتا ہے — جو کام ہمیں کرنا چاہیے اس کو تو ہم نہیں کر رہے ہیں اور جس کام کے کرنے کی ممانعت کی گئی ہے اس کو ھم بصدشوق انجام دے رہے ہیں، ایسی حالت میں سدھار کیسے ہوسکتا ہے؟ اصلاح تو اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم سنتِ نبوی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر چلیں۔

            دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو حضور نبئِ کریم صلّی اللّٰہ وسلّم کی تعلیمات پر سچے دل سے عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے- آمین بجاہ سیّد المرسلین صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے