ستی پرتھا کو ختم کرنے والا راجا رام موہن ایک مدرسہ کا فارغ التحصیل تھا: معین الدین سلفی

  • موضع کٹیا ،شاہ پور ڈومریاگنج میں فلاح انسانیت ٹرسٹ اٹوا کے زیر اہتمام ایک دینی واصلاحی پروگرام کا انعقاد

ڈومریاگنج، سدھارتھنگر:
مدارس نے ہمیشہ انسانیت کا درس دیا ہے یہ اسلام اور انسانیت ایک ساتھ دونوں کی خدمات انجام دے رہا ایسے لوگ جو مدارس کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ تعلیم کا سب سے پہلا مرکز یہی مدارس ہیں اوران کی خدمات کی کچھ جھلکیاں پیش خدمت ہے،
جیسا کہ مدارس ملک کے لاکھوں نادار افراد کو نہ صرف تعلیم سے بہرہ ور کرتے ہیں، بلکہ ان کی ضروریات ،مثلاً خوراک، رہائش، علاج اور کتابوں کی فراہمی اور خود ان کی کفالت بھی کرتے ہیں۔
٭…مدارس معاشرہ میں بنیادی تعلیم اور خواندگی کے تناسب میں معقول اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔
٭…مدارس عام مسلمانوں کو عبادات، دینی راہ نمائی او رمذہبی تعلیم کے لیے رجال کار فراہم کرتے ہیں۔
٭…مدارس عام مسلمانوں کے عقائد ، عبادات، اخلاق اور مذہبی کردار کا تحفظ کرتے ہیں اور دین کے ساتھ ان کا عملی رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔
٭…مدارس اسلام کے خاندانی نظام اور کلچر وثقافت کی حفاظت کر رہے ہیں اورغیر اسلامی ثقافت وکلچر کی یلغار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے مضبوط حصار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
٭…مدارس اسلامی عقائد واحکام کی اشاعت کر رہے ہیں اور ان کے خلاف غیر مسلم حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات وشبہات کا جواب دیتے ہیں۔
مدارس اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عقائد واحکام سے انحراف اور بغاوت کا مقابلہ کر رہے ہیں او رمسلمانوں کی ”راسخ العقیدگی“ کا تحفظ کر رہے ہیں۔
٭…مدارس مادہ پرستی، مفادات، خود غرضی اور نفسا نفسی کے اس دور میں قناعت، ایثار اور سادگی کی روحانی اقدار کو مسلمانوں کے ایک بہت بڑے حصے میں باقی رکھے ہوئے ہیں۔
٭…مدارس وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات کے مکمل اور محفوظ ذخیرہ کی نہ صرف حفاظت کر رہے ہیں، بلکہ سوسائٹی میں اس کی عملی تطبیق کا نمونہ بھی باقی رکھے ہوئے ہیں،تاکہ نسل انسانی کے وہ سلیم الفطرت لوگ، جو ”عقل خواہش“ کی مطلق العنانی کے تلخ او رتباہ کن معاشرتی نتائج کو محسوس کرتے ہیں او رجن کی تعدادمیں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے انہیں وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات کے حقیقی سرچشمہ تک رسائی میں کوئی دقت نہ ہو۔ اس طرح یہ مدارس صرف مسلمانوں کی ہی نہیں، بلکہ پوری نسل انسانی کی خدمت کر رہے ہیں او راس کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرہے ہیں۔لہذا ان مدارس کے ان احسانات کو فراموش نہیں کر سکتے۔اس لیے ان کی ضرورت مسلم ہے ان کا تحفظ ہونا چاہیے ان خیالات کا اظہار معین الدین سلفی استاذ جامعہ اسلامیہ خیر العلوم ڈومریاگنج نے اپنے خطاب میں کیا
بعدہ عبد الرقیب سلفی نے زبان کی حفاظت پر ایک بہترین خطاب کیا جس میں آپ نے زبان جیسی نعمت کا لوگوں کو احساس دلایا اور کہا کہ زبان کے شر سے وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو اسے شریعت کی لگام پہنائے اور سنت کی زنجیریں ڈال دے۔ اور صرف اس وقت آزاد کرے جب کوئی ایسی بات کرنی ہو جو دین و دنیا کے لیے مفید ہو اور اسے ہر ایسی بات سے روکے جس کی ابتدا یا انتہا سے برے انجام کی توقع ہو۔ تاہم یہ بات معلوم کرنا کہ کون سی بات اچھی ہے اور کون سی بات بری،کہاں زبان کو بولنے کے لیے آزاد کرنا بہتر ہے اور کہاں برا ہے، انتہائی دشوار ہے۔ اور معلوم بھی ہوجائے تو اس پر عمل کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ انسان کے اعضاء میں سب سے زیادہ نافرمانیاں زبان سے سر زد ہوتی ہیں کیونکہ اسے حرکت دینے میں نہ کوئی دقت ہے اور نہ تعب و تھکن۔ لوگ زبان کی آفات سے بچنے میں تساہل برتتے ہیں اور اس کے شر کو معممولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ شیطان کا مؤثر ترین ہتھیار ہے۔ اس کے ذریعے وہ اللہ کے بندوں کو شکست دیتا ہے اور انہیں گمراہی کے راستے میں چلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس موقع پر مولانا اظہار احمد اثری نے بھی مدارس اسلامیہ کا استحکام اور اس کی حفاظتی تدابیرکے موضوع مختصر مگر ضروری ہدایات فراہم کیں تاکہ ہمارے مدرسوں کی ترقی ہو،وہیں دشمنانِ اسلام اورمدارس مخالف عناصر سے مدارس کی حفاظت بھی ہو۔اور تاقیامِ قیامت پورے سکون واطمنان اور عافیت سے ہمارے مدارس میں تعلیمی وتربیتی عمل چلتارہے۔
پروگرام کا آغاز حافظ وقاری فلاح انسانیت ٹرسٹ اٹوا کےنگران اعلی جناب صفی الرحمن فرقانی کی مسحور کن خوبصورت آواز کے ذریعہ ہوا نظامت کا فریضہ سعید احمد اثری نے انجام دیا اس دینی پروگرام میں عوام وخواص کی اچھی تعداد نے شرکت کی جن گاؤں کے مدرسہ کے ناظم اعلی مظہر علی خان ماسٹر عبد الودود حافظ اشتیاق احمد صفوی وغیرہم کے علاوہ مسجد کے بغل مدرسہ میں گاؤں کی خواتین نے بھی شریک ہو کر علماء کرام کے بیانات کو سنا اور استفادہ کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے