عداوت کی سیاہی میں اُجالا کر لیا جائے
محبت کی زمیں پر آج سجدہ کر لیا جائے
پیامِ دوستی دے کر اُسے دل سے دعا دے کر
پرایا تھا کبھی جو اس کو اپنا کر لیا ہے
ابھی کچھ دور منزل ہے ابھی دشوار رستے ہیں
ابھی ان ریگزاروں میں بسیرا کر لیا جائے
چلو اک فیصلہ کر لیں چلو اک فیصلہ کر لیں
مِلن کا یا جدائی کا ارادہ کر لیا جائے
کسی نقصان سے دل کو بچانے کے لیے فرحتؔ
یہ سوچا ہے کہ خود اپنا خسارہ کر لیا جائے
ڈاکٹر فرزانہ فرحت، لندن