مسلمانوں کے وقف بورڈ پر ایک ترمیمی بل مودی سرکار نے گزشتہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں متعارف کرایا ہے ۔لیکِن حزب اختلاف کے ممبران اور سرکار کے اتحادی ٹی ڈی پی کی مخالفت کی وجہ سے اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے ۔حالانکہ اس بل کو لانے کا خاص مقصد آنے والے ہریانہ،جمّوں و کشمیر ،مہاراشٹر اور جھاڑکھنڈ میں وقف ترمیمی بل کے نام پر فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ کر ہندو ووٹوں کو یکجا کرنا مانا جا رہا ہے۔لیکِن موجودہ مرکزی سرکار کوئی بھی ایسا حلقہ چھوڑنا نہیں چاہتی ہے جہاں سے بڑے پیمانے پر پیسے آتے ہوں یا آ سکتی ہیں اور اُن پیسوں کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتی ہیں۔حالانکہ وقف کے املاک سے مسلمان کتنے مستفید ہو رہے ہیں یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔لیکِن مودی سرکار کے آنے سے پہلے وقف کی املاک سے خرد برد پہلے کی سرکار کرتی رہی ہیں ۔وقف کی ہوئی زمین کو فروخت نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ممبئی کے سمندر کنارے اربوں کی زمین مکیش امبانی کو اونے پونے قیمت پر کیسے فروخت کی گئی یہ سب کو پتہ ہے اور اس وقت تو مسلم مخالف سرکار مرکز میں نہیں تھی۔وقف کی لاکھوں ایکڑ زمین پر کسی اور کا قبضہ ہوا ہے یہ بھی گزشتہ سرکار میں ہی ہوا ہے ۔کانگریس یا دوسری سیکولر جماعتیں وقف بورڈ کے مسلم چیئرمین اور بورڈ کے دوسرے ممبران سے ہی وقف کی املاک کو دوسرے کے ہاتھوں میں دیتے رہے ہیں یا فروخت کرتے رہے ہیں۔یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔وقف کی جائیداد بہت ہی کم کرایہ پر آج بھی لوگوں کو دیا ہوا ہے۔کرایہ اتنا کم ہے کہ وقف کے ذمےدار کو اُن کرایوں سے ٹیکس بھرنے تک کا پیسہ نہیں نکل پا تا ہے ۔وقف کی املاک کو مسلمان خود ختم کرنے پر تلے ہیں تو دوسرا کیا کر سکتا ہے ۔جس شَخص کے ہاتھ میں وقف کی ذمےداری آتی ہے وہ اپنے دور میں وقف کی املاک میں خرد برد کر زیادہ سے زیادہ ذاتی املاک بنا لینا چاہتا ہے ۔وقف کی حفاظت پر مامور شَخص کو خود اپنے قوم کا خیال نہیں ہے تو دوسرا کیا کرے۔
لیکن مودی سرکار نے جو بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اس میں دو ترمیمات کافی خطرناک ہیں۔پہلا وقف کی زمین کا سروے کرنے کا پاور ڈسٹرکٹ کلکٹر کو ہوگا اور دوسرا وقف بورڈ کا ممبر غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے ۔یاد رہنا چاہیے بابری مسجد کا سروے ڈسٹرکٹ کلکٹر نے ھی کیا تھا ۔پچھلی سرکاروں میں مسلم نام کے اپنے آدمی کو وقف بورڈ کا چیئرمین بنا کر پیچھے سے کام کرایا جاتا رہا ہے لیکن موجودہ سرکار اپنے غیر مسلم شخص کو یا آر ایس ایس کے لوگ کو وقف بورڈ کا چیئرمین بنا کر وقف کی املاک کو اپنے طریقے سے فروخت کریگی یا استعمال کریگی۔جہاں وقف کی زمین پر تنازعہ کھڑا ہوگا ڈسٹرکٹ کلکٹر سروے کر یہ بتا دیں گے کہ یہ زمین وقف کی نہیں ہے ۔
مودی سرکار نے وقف کی ترمیمی بل لاکر اسے قانونی پچرے میں ڈال دیا ہے ۔اب کئی انتخابات میں وقف ترمیمی بل بی جے پی اور دوسری جانب انڈیا اتحاد کے لئے موضوع بنتا رہے گا ۔ویسے مودی سرکار کسی بھی موضوع کو ٹچ کرتی ہے تو اس کا پہلا مقصد چناو میں فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے اور دوسرا اُنکے چند کارپوریٹ دوستوں کو مالی فائدہ ہو جائے تاکہ چناو کا خرچہ پارٹی کا نکلتا رہے۔چاہے تین زرعی بل ہو یا متھرا کی عید گاہ کا معاملہ ہو یا بنارس کی مسجد کا معاملہ ہو یا پھر ایودھیا کا معاملہ ہو۔مساجد کو ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مقصد ووٹ حاصل کرنا رہا ہے ۔دوسری جانب اُن تیرتھ جگہوں کے ارد گرد کی زمین اؤنے پونے میں بیچنے کے لئے مقامی لوگوں کو مجبور کر دیا جائے ۔تاکہ وہ تیرتھ جگہ بزنس حب بن جائے۔
تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787