از قلم : مدثر احمد
شیموگہ، کرناٹک۔ 9986437327
موجود ہ دور میں قوم مسلم کے زوال کے اسباب کی جب بات کی جاتی ہے تو مختلف وجوہات سامنے آتے ہیں ان میں سے دو اہم وجوہات کا جو تذکرہ ہم کرنے جارہے ہیں۔ جس میں ایک وجہ سیاست میں رہ کر بھی سیاسی شعور نہ ہونا اور دوسرا پولیس و خفیہ ایجنسیوں کی مخبری کرنا ہے ۔ اکثر یہ کہا جاتاہے کہ مسلمان سیاست سے دور ہیں لیکن جہاں تک ہم دیکھ رہے ہیں مسلمان سیاست سے دور نہیں ہیں بلکہ وہ سیاست میں رہ کر بھی غیر سیاسی ہیں ، و ہ قیادت اور نمائندگی کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ چمچہ گری ، چاپلوسی اور جی حضوری کے دائرے میں رہنا ہی پسند کررہے ہیں ۔ کسی بھی سیاستدان کو دیکھیں کہ کیسے مسلمانوں کی بڑی تعداد انکی چمچہ گری اور چاپلوسی میں لگی ہوئی رہتی ہے ، حالانکہ اس چمچہ گری اور چاپلوسی کے عوض انہیں چند ایک عہدے تو مل جاتے ہیں لیکن بطور مسلمان قیادت کی جوذمہ داری انکی ہوتی ہے اس میںوہ ناکام ہوجاتے ہیں اور تاحیات صرف فالوور بن کر ہی زندگی بسر کرتے ہیں نہ کہ لیڈر بن کر اپنی قوم کی نمائندگی کرنے کا جذبہ ان میں دیکھاجاسکتاہے ۔ جس طرح کے سیاسی حالات ہیں ان میں یہ لوگ چاہیں تو مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے مسلمانوں کی رہنمائی کرسکتے ہیں لیکن ان میں چمچہ گری کرنے کا جوبھوت سوار ہے وہ اترنے کا نام نہیں لیتا ان حالات میں یہ لوگ قوم کی قیادت کیسے کرسکتے ہیں ۔ اکثر نوجوان سیاسی چمچوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ سیاست میں صرف اپنے لیڈر وں کی واہ واہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، جبکہ یہ لیڈران انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ ضرورت کے موقع پر انکا استعمال مسلمانوں کے درمیان کریں ورنہ انکی صلاحیتوں کا جائزہ لیاجائے تو انکی اپنی جورو بھی انہیں وقت آنے پر ووٹ دینے سے کترائے۔ ایک طرف چمچہ گری کا نشہ ان پر چھایا ہوا ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ قوم کے اتحاد ، قوم کی ضرورت اور قوم کی قیادت کو نظر انداز کردیتے ہیں ، جب قوم کسی مدعے پر متحد ہوکر اپنے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو سیاسی چمچے اپنے سیاستدانوں کو خوش کرنے کے لئے قوم کے مدِمقابل کھڑے ہوجاتے ہیں ، اس طرح کے حالات نئے نہیں ہیں بلکہ ہر دور میں منافقوں کا ایک حصہ قوم اور حق کے خلاف ہی کھڑا رہاہے ۔جس طرح سے حضرت ٹیپوسلطان شہید ؒ کے دور میں میر صادق ٹیپو سلطان کے خلاف سازشیں رچتے ہوئے اپنے انگریز آقائوں کو خوش کرنے کا کام کیاتھا اسی طرح سے آج بھی میرصادق مسلمانوں کے درمیان پیدا ہوجاتے ہیں ، لیکن یہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ میر صادق کو انگریز وں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے دربار سے نکال پھینکا تھا اور اس کا حشر گھرکا نہ گھاٹ کا ہوا۔ اسی طرح سے اور بھی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں جس میں مسلمانوں کی قیادت کے نام پر توبظاہر کئی لوگوں نے اقتدار حاصل کیا یاپھر اقتدار حاصل کرنے والوں کی دلالی کی لیکن ان کا حشر آخر میں دنیا کے لئے ایک نمونہ بن گیا ہے ۔ اس لئے جو لوگ سیاستدانوں کی چمچہ گری کرتے ہیں ، انکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قوم کی سودے بازی کرتے ہیں ، قوم کے منصوبوں کوناکام کرنے کی سازشیں رچتےہیں وہ باز آجائیں تو لوگ انہیں مستقبل میں لیڈر کے طورپر جانیں گے نہ کہ قوم کے بروکر کے حصے میں ان کی شناخت ہوگی ۔ بہت سے ایسے نوجوان جو سیاست کی پہلی سیڑھی چڑھ کر اپنے آپ کو سیاست کا تیس مار خان سمجھتے ہیں انہیں اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ انکا وجود قوم سے ہے نہ کہ انکے وجود سے قوموں کی شناخت ہوتی ہے ۔ پہلے انہیں مسلمان کہا جائیگا پھر انہیں انکی پارٹی یا لیڈر سے جانا جائیگا ۔ اس بنیاد پر ایسے نوجوانوں کو قوم کو ترجیح دیتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں سے دوسرا سبب پولیس کی مخبری ہے ۔ آج ہر دوسرا نوجوان یہ سمجھتاہے کہ کوئی کانسٹیبل یا انسپکٹر انہیں بلاکر دو چار بول میٹھے بول لے تو وہ انکا دوست ہے ۔اگر یس پی نے مجموعے میں سے کسی کا نام لے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ سماج کا بڑا شخص ہے ، ایسا بالکل نہیں ہے ، انگریزوں نے جنگ آزادی کے موقع پر ہندوستانیوں کی چال سمجھنے اور ہندوستانیوں کے درمیان نفاق پیدا کرنے کے لئے ہندوستانیوں کے درمیان میں سے ہی کچھ لوگوں کو اپنا خاص بناکر مخبری کرنے کا رواج قائم کیا تھا ، یہ رواج آج بھی پولیس محکمہ قائم کیا ہواہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پولیس کبھی کسی کی خاص نہیں ہوتی نہ ہی پولیس کا کوئی خاص بن سکتاہے ۔ جو لوگ پولیس میں اپنی جان پہچان بڑھانے اور پولیس میں اپنے اثر و دبدبے کا قائم کرنے کے لئے اپنے ہی لوگوں کی مخبری کرتے ہیں ، اپنوں کی کمزوریوں کو پولیس یا جانچ ایجنسیوں کے درمیان ظاہر کرنا اپنی طاقت سمجھتے ہیں انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کام کو انجام دے کر وہ قوم کے لیڈر تو نہیں بن رہے ہیں بلکہ وہ دلالی ہیں اور انکی دلالی چند دنوں کی ہوتی ہے ۔ لیکن ان کی دلالی سے جو نقصان قوم مسلم کو ہوتاہے وہ سب سے بڑا نقصان ہے ۔ اکثر ہر پولیس تھانے کے ماتحت کچھ لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے دعویدار ہوتے ہیں لیکن وہ مسلمانوں اور پولیس کے درمیان کے دلال ہوتے ہیں جن معاملات کو سلجھانے کے لئے یہ پیسوں کا لین کرتے ہیں وہی انکی خدمت کا معاوضہ ہے ۔ حالات اس قدر بدتر ہوچکے ہیں کہ پولیس کی مخبری کرنے والے لوگ اب قوم کی فلاح و بہبودی کے تعلق سے لئے جانے والے فیصلوں کو بھی پولیس میں پہنچا کر اپنی واہ واہی بٹورنے لگتے ہیں ۔ پہلے تھانوں یا سرکاری دفاتر میں بھلے لوگوں کی بات مانی جاتی تھی اور قومی و ملّی مسائل کو حل کرنے کیلئے باوقار لوگوں کا ساتھ لیاجاتا تھا لیکن اب دلالوں نے اسٹیشنوں پر قبضہ جمع کر اچھے لوگوں کو دور کردیا ہے اور قوم کو ہر طرح سے نقصان پہنچانا شروع کردیاہے ۔ افسوس اس بات کاہے کہ لوگ ایسے دلالوں کو اپنا قائد ، اپنا لیڈر ماننے لگے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص اسٹیشنوں میں رہتاہے وہی انکا لیڈر ہے ۔ قوم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان حالات کو بدلیں اور ایسے دلالوں کے ارادوں کو کمزور کریں ورنہ سیاست کے چاپلوس اور تھانوں کے مخبر قوم کو مزید تباہ کردینگے ۔