از : مفتی سید عاکف تمیم قاسمی
مدرسہ عربیہ نعمانیہ سنگاریڈی
دنیا بھر کے موٹیویشنل اسپیکرز اور نفسیاتی ماہرین کی جانب سے مثبت سوچ positive thinking کے سلسلے میں اس دور میں جتنا بولا اور لکھا جا رہا ہے وہ ہم میں سے کسی شخص سےمخفی نہیں ہے ، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ مثبت سوچ کا انسان کے ذہن و دماغ پر حتی کہ اس کی کارکردگی پر بھی غیر معمولی اثر ہوتا ہے ؛ اور خاص کر ایسے افراد جن کی ذہنی صحت مسلسل ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا شکار رہتی ہو اُن کے لیے اپنے ذہن و دماغ کو مثبت رکھنا ہی اُنکے درد کا مداوا اور اِس زہر کا تریاق سمجھا جاتاہے ، ایسے وقت بحیثیت مسلمان ہماری سب سے پہلی ذمے داری یہ ہے کہ بجائے کسی اور کا سہارا لینے کے ہم سب سے پہلے نبی علیہ السلام کی ہمہ جہت اور جامع تعلیمات میں اس کا حل تلاش کریں ، اس مختصر مضمون میں اسی بات کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ کے مبارک ارشادات کی روشنی میں ہم مثبت سوچ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے طریقہ کار کو سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں ۔
مثبت سوچ کے دو رخ ہیں
(۱)خود بھی مثبت ( positive) رہیں اور
(۲) معاشرہ کو بھی مثبت نظر سے دیکھیں ۔
(۱) اپنے آپ کو مثبت (positive) رکھنے کے طریقے ۔
پہلا طریقہ: نیک فال لینے کی عادت ڈالنا:
آپ علیہ السلام کے مثبت سوچ کا ہی حصہ ہے کہ آپ نیک فال لیا کرتے تھے اور بد فالی سے منع کرتے تھے کسی صحابی کا نام اگر منفی طرز کا ہوتا تو اسے تبدیل کر کے مثبت طرز کا رکھ دیتے ۔
نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا لا عدوى ولا طيرة ويعجبني الفال الصالح الكلمة الحسنة”. کہ بیماری کے ایک دوسرے کو لگنے کی کوئی اصل نہیں ہے، اور بد شگونی کی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ مجھے نیک فال پسند ہے یعنی یہ کہ کوئی اچھا کلمہ کہہ دے ۔
صحیح بخاري ٥٧٥٦.
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام جب کبھی کسی کام کے لیے نکلتے تو اپ کو یہ سننا پسند ہوتا کہ کوئی کہے يَا رَاشِدُ، يَا نَجِيحُ. ١٦١٦.
يَا رَاشِدُ : آئے ہدایت پانے والے
يَا نَجِيحُ : آئے كامیابی پانے والے .
بخاری شریف کی روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کہ کفار مکہ اپ سے مزاحمت کر رہے تھے اور سختی اور درشتی سے پیش آرہے تھے اسی دوران آپ نے جب قریش کی طرف سے ان کے نمائندے سہیل ابن عمرو کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا
لَقَدْ سَهُلَ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ ، اب تمہارا معاملہ کچھ سہل ہو چکا ہے ۔
(کیوں کہ لفظ سہیل سہل سے بنا ہے جس کے معنی آسانی کے ہوتے ہیں )۔ ٢٧٣٣.
دوسرا طریقہ: خود کو مثبت رکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مثبت لوگوں کے ساتھ رہیں :
المرءُ على دينِ خليلِهِ فلينظُر أحدُكم من يُخالِلْ أبو داود (٤٨٣٣)
نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ادمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک یہ غور کرے کہ وہ کس کو اپنا دوست رکھتا ہے .
اس حدیث شریف سے یہ بات صاف ثابت ہوتی ہے کہ صحبت اور دوستی کا انسانی طبیعت پر اثر ہوتا ہے اسی لیے مثبت رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہوگا کہ ہم مثبت طرز کے لوگوں کے ساتھ رہیں۔
حضرت سیدہ خدیجہ رض کا مثبت طریقہ سے ذہن سازی کرنا :
جب نبی علیہ السلام پر پہلی مرتبہ وحی کا نزول ہوا تو آپ بہت گھبرائے ہوئے تھے ، آپ کو سخت بخار ہوچکا تھا حتٰی کہ اس موقع پر آپ کو اپنی جان کا خدشہ ہورہا تھا تب حضرت خدیجہ رض نے جو انقلابی کردار نبھایا اسے بھی ہم مثبت زاویہ فکر سے تعبیر کرسکتے ہیں آپ نے نبی علیہ السلام کے فضائل گنوانے شروع کردیے اور اُن امور کی بھی یاد دھانی کروائی جو کہ نبی علیہ السلام کی چالیس سالہ زندگی کا حصہ رہے ہیں آپ نے فرمایا
كَلّا واللَّهِ ما يُخْزِيكَ اللَّهُ أبَدًا، إنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وتَحْمِلُ الكَلَّ، وتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وتَقْرِي الضَّيْفَ، وتُعِينُ على نَوائِبِ الحَقِّ،
صحيح بخاري ٣.
کہ اللہ آپ کو ہر گز ضائع ہونے نہیں دینگے بلاشبہ آپ رشتے جوڑتے ہیں ، کمزور کا سہارا بنتے ہیں ، محتاج کی مالی معاونت کرتے ہیں ، مہمان کا اکرام کرتے ہیں اور مستحق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں ۔
ذرا ان الفاظ پر غور کریں ، اِدھر نبی علیہ السلام ذہنی اعتبار سے تکلیف کا شکار ہیں اور یہ حضرت خدیجہ رض کے الفاظ ہیں کہ آپ ایسے وقت میں مثبت امور کی طرف
توجہ مرکوز کروارہے ہیں اس سے نبی علیہ السلام کو جو سکون و اطمینان حاصل ہوا ہوگا وہ ظاہر ہے ۔
تیسرا طریقہ:اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھیں :
خود کو مثبت ( positive) رکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دنیاوی امور میں اپنے سے کم تر لوگوں پر نظر رکھی جائے ۔
نبی علیہ السلام نے فرمایا : انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ, وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ, فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ». مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔( بُخاری و مسلم )
کہ تم (دنیاوی نعمتوں کے سلسلے میں ) اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھو ! اپنے سے برتر لوگوں کو مت دیکھو ! اس فائدہ یہ ہوگا کہ تو اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہیں کروگے ۔
(٢) معاشرہ کو مثبت انداز سے دیکھنا :
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر روانہ فرمایا جب ہم وہاں پہنچے تو دشمن کے ایک فرد سے میری اور ایک انصاری صحابی کی مڈ بھیڑ ہوئی جب ہم نے اس پر قابو پا لیا تو اچانک اس نے کہا لا الہ الا اللہ اس پراُن انصاری صحابی نے تو اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا لیکن میں نے اس کو قتل کر دیا جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو اپ غمگین ہوئے اور آپ نے فرمایا :
أَقَتَلْتَهُ بَعْدَمَا قَالَ: لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ
اے اسامہ کیا اپ نے لا الہ الا اللہ کے کہنے کے بعد بھی اس کو قتل کر دیا یہ بات اپ نے اتنی مرتبہ دہرائی کہ مجھے یہ تمنا ہونے لگی کہ کاش میں اج سے پہلے مسلمان نہ ہوتا اور اج ہی مسلمان ہوا ہوتا
صحيح بخاري ٤٢٦٩.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میری بیوی نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جسکا رنگ سیاہ( کالا) ہے اور میں نے اس کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا بلکہ اس کے نسب کا انکار کردیا ، جب آپ نے یہ سنا تو اس شخص سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ انہوں نے کہا جی ہیں ۔ آپ نے دریافت کیا
ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ان کے رنگ سرخ ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید پوچھا کہ کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں، ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ خاکستری رنگ کے اونٹ کہاں سے آ گئے؟
اس نے جواب دیا قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِرْقٌ نَزَعَهَا .کہ کوئی رگ ہو گی جس نے انہیں کھینچ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو پھر اُسے بھی کسی رگ ہی نے کھینچ لیا ہو گا۔
صحیح بُخاری ٧٣١٤.
اِن روایات سے ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح معاشرہ کو مثبت انداز سے دیکھتے تھے اور اسی کی آپ نے تعلیم بھی دی ہے ۔
اللہ ہمیں توفیقِ عمل نصیب فرمائے آمین