محمد قمر الزماں ندوی
استاد /مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
اس وقت پوری دنیائے کفر اسلام کے خلاف متحد و متفق ہے اور اسلام کو ختم کرنے اور مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کے لیے کوشاں ہے ، اشتراکی نظام کی تباہی کے بعد سے اسلام کے خلاف پوری دنیا نے کمر کس لی ہے ،اور اس مقصد کے لیے مشرق و مغرب کے روایتی حریف و رقیب بھی باہم شیر و شکر ہوچکے ہیں اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملا چکے ہیں ۔خود ہندوستان میں اسپین و اندلس کی تاریخ دہرانے کی پوری تیاری ہے ،نقشہ اور پلان تیار ہے بس رنگ بھرنے کا کام چل رہا ہے ،حالات کس قدر نازک ہیں اور منصوبہ کس قدر خطرناک ہے، یہ کسی بھی صاحب فہم و فراست سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے ،ایسے میں مسلمانوں کا باہمی نزاع و اختلاف میں پڑنا اور ایک دوسرے کو ضال و گمراہ ثابت کرنا اور صرف اپنے کو نجات یافتہ سمجھنا، اور ایسے مسائل کو سوشل میڈیا پر نشر کرنا اور ہر رطب و یابس کا اس میں کود پڑنا،دوسرے کو ہنسنے اور ہنسانے کا موقع دینا اور پھر اس میں مست ہوکر دشمن کے مکر و فریب اور پلانگ سے بے خبر ہو جانا ،انتہائی غیر دانشمندانہ عمل ہے اور حرکت ہے ،اس سے یہ امت ٹوٹ جائے گی افتراق و انتشار کا شکار ہوجائے گی،ہماری ہوا اکھڑ جائے گی ،ہم ناکام ہوجائیں گے اور پھر ہمارے دشمن ہم پر ہر طرح سے حاوی ہو جائیں گے اور ہو رہے ہیں۔ اس وقت ہندوستانی مسلمان بہت ہی بے سمجھی اور ناسمجھی کی باتیں کررہے ہیں ۔ آراء کا اختلاف ،فکر کا اختلاف ہر دور میں رہا ہے ،صحابہ کرام میں بھی باہم اختلاف رائے تھا ۔امت میں کبھی کوئی اختلاف ہی نہ ہو ایسا ممکن نہیں ہے ،اختلاف رائے پہلے بھی رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور اس کے باقی رہنے میں ہی خیر ہے ، لیکن یہ بات یاد رہے اختلاف فکر نہ اتحاد عمل میں مانع ہے ،نہ ہی باہمی عزت و تکریم اور توقیر و احترام میں ،اگر ہم مسلمانوں نے اور خاص طور علماء امت نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا تو یہ ایسی بدبختی ہوگی کہ شاید اس کی تلافی کبھی ممکن نہ ہو اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کرے ۔ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں پر تلوار لٹک رہی ہے، ان کے وجود کو مٹانے کی پوری مہم ہے، ایسے وقت میں مسلمان ایک دوسرے کو کافر و مشرک ٹہرانے میں اپنا سارا زور صرف کریں ،کیا اس سے بھی زیادہ بدعقلی اور ناسمجھی کی کوئی بات ہوسکتی ہے ۔
عقیدے کا اختلاف ماضی میں بھی اہل علم میں رہا ہے ،لیکن وہاں بھی سلف اس بات پر متفق تھے کہ کسی کو کافر اور ضال قرار دینے میں احتیاط سے کام لیا جائے ۔ اتفقوا علی عدم التکفیر بذلک،،
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں ،، مسلمانوں کے باہمی اختلاف کچھ تو عقائد میں ہیں اور زیادہ تر عملی احکام میں ،عقائد میں بعض اختلاف یقینا گمراہی کے قبیل سے ہے ،لیکن جو لوگ اہل سنت والجماعت کی راہ سے منحرف ہوں ان کو بھی کافر کہنے میں سلف صالحین نے بہت احتیاط کا ثبوت دیا ہے ،چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کو باوجود ان کے فساد و فکر و عمل کے کافر قرار دینے سے احتیاط و اجتناب فرمایا ،معتزلہ سے دسیوں مسائل میں اختلاف کے باوجود اہل علم نے ان کی تکفیر سے گریز کیا ،اور قدریہ اور جبریہ وغیرہ کا شمار تقدیر کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت سے سخت اختلاف کے باوجود بھی مسلمان فرقوں میں کیا گیا ،اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سلف کے اختلاف رائے میں کس قدر اعتدال تھا ۔خود اہل سنت والجماعت کے درمیان بھی بعض اعتقادی مسائل میں اختلاف رہا ہے اور یہ عہد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ہے ،حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باری تعالیٰ کو دیکھنے کے قائل تھے ،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو اس سے انکار تھا ،بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے قائل تھے کہ مردہ پر اہل و عیال کے رونے سے عذاب ہوتا ہے ،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اس کی تردید کرتی تھیں ،بعض صحابہ کی رائے تھی کہ مردے سنتے ہیں اور جمہور اس کے قائل نہیں تھے ،یہ اختلاف صحابہ رض کے بعد صدیوں اہل علم بلکہ عوام کے درمیان بھی زیر بحث رہا ۔بعد کے ادوار میں جب اسلام کے اعتقادی تصورات علم کلام کے نام سے مرتب کئے گئے تو اصولی مسائل میں اتحاد کے باوجود ان عقائد کی تشریح و توضیح اور تعبیر و تفہیم میں خاصا اختلاف پیدا ہوا اور اشعری ،ماتریدی اور حنبلی دبستان فکر ابھرے ،لیکن اس اختلاف نے کبھی جھگڑے اور نزاع کی صورت اختیار نہیں کی ،لوگ ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرتے ،ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ،ان کے علم و فضل ورع وتقویٰ کا برملا اعتراف کرتے ،علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلف اس بات پر متفق تھے کہ اس کی وجہ سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا ،اتفقوا علی عدم التکفیر بذلک ،، مجموع الفتاویٰ 12/495– مستفاد عصر حاضر کے سماجی مسائل ۔۔۔
اعتقادات کے علاوہ مسائل میں فقہاء کے درمیان ہزاروں مسائل میں اختلاف رہا ائمہ اربعہ کے درمیان بھی اور خود احناف میں بھی، لیکن یہ اختلاف کبھی باہمی توقیر و احترام اور ان کے مقام و مرتبہ کے اقرار و اعتراف میں مانع نہیں ہوتا تھا ،اس کی بنیادی وجہ اور سبب یہ تھا کہ امت میں دین کے مزاج و مذاق کے بارے میں صحیح فہم تھا،وہ جانتے تھے کہ یہ دین کے اصول و بنیاد اور اساس نہیں ہے بلکہ ایسے مسائل ہیں جن میں ایک سے زیادہ رائے کی گنجائش ہے ،ان میں ایک رائے پر اصرار اور دوسری رائے کے بارے میں عناد کا رویہ صحیح نہیں ،اس لئے انہوں نے فروعی اختلاف کو کبھی اہمیت نہیں دی ۔۔۔۔۔۔
علماء اور فقہاء کو تو جانے دیجیے وہ تو دین کے شارح اور ترجمان ہیں ۔ ماضی میں سربراہان مملکت کا ذہن بھی اس بارے میں بہت وسیع اور کشادہ تھا ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں مامون الرشید کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے ، مامون کے دور حکومت میں ایک شخص عسائیت کی طرف مرتد ہوگیا ،مامون رشید نے اس پر سزا جاری کرنے سے پہلے اس کو مطمئن کرنے کی غرض سے دریافت کیا کہ تمہارے مرتد ہونے کا سبب کیا ہے ،اس نے کہا کہ تم لوگوں کا اختلاف ،مامون نے کہا کہ ہمارے اختلاف دو طرح کے ہیں ،ایک تو جیسے اذان کے کلمات ،جنازہ کی تکبیرات اور تشہد وغیرہ کے بارے میں تو یہ اختلاف نہیں ،بلکہ تنگی کی بجائے توسع اور تخفیف ہے ،اسی لئے جو اذان و اقامت کے دہرے کلمات کہتا ہے ،وہ اس شخص کو غلط قرار نہیں دیتا ،جو اقامت کے اکہرے کلمات کہتا ہے ،ان فقہی اختلافات کی وجہ سے نہ ہم ایک دوسرے کو حقیر سمجھتے ہیں اور نہ برا بھلا کہتے ہیں، لا یتعایرون بذلک ولا یتعاتبون ،،دوسرا اختلاف وہ ہے، جو کسی آیت یا حدیث کی تشریح میں ہوتا ہے ،اگر تم کو اس سے وحشت ہے، تو تورات و انجیل کی تشریح میں بھی علماء یہود ونصاریٰ متفق نہیں ہیں کیونکہ کوئی بات جب تفصیل طلب ہوگی، تو اس کی تشریح میں یقینا اختلاف کا امکان ہوگا ،اگر اللہ کو یہ بات منظور ہوتی کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہو تو اللہ نے اپنی کتاب میں ایسی کوئی بات نازل نہ کی ہوتی ،جو تفسیر و تشریح کی محتاج ہو ،مامون الرشید کی اس بات نے اس شخص کے ذہن کی گھتی کھول دی اور وہ فورا ارتداد سے تائب ہوگیا ،، —عیون الاخبار 2/ 154/بحوالہ عصر حاضر کے سماجی مسائل صفحہ 35—
نوٹ مضمون کا آخری حصہ کسی اور موقع پر ملاحظہ کریں ۔
ناشر / مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ