اشرف یعقوبی کا کولکاتا مغربی بنگال سے ہے، آپ جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کے شاعر ہیں ان کی غزل کا یہ مصرع "ان کی آنکھوں کے اشارے میں نہیں آئیں گے” نہایت دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ یہ غزل اپنے اندر کلاسیکی غزل کی روایت کو سمیٹے ہوئے ہے، اس میں شاعر نے جدید احساسات اور فکر انگیز افکار و خیالات کو بیان کیا ہے۔
یعقوبی کی غزل کا بنیادی موضوع محبت، رشتے اور انسانی جذبات ہیں۔ شاعر نے اپنی غزل میں انسان کی خودداری، اپنی حدود و قیود اور دنیاوی تعلقات کی حقیقت کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ پہلے شعر سے ہی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کسی بھی صورت کسی کے فریب میں آنے کو تیار نہیں ہے۔ "اشارے” کو علامتی طور پر غزل میں استعمال کیا گیا ہے، جو کہ اکثر محبت یا دنیاوی رشتوں میں فریب اور دھوکہ دہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعقوبی نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان چالاکیوں اور دھوکہ دہی کا شکار نہیں ہوں گے۔
دوسرے شعر میں شاعر نے اپنے غم کی کہانی کو اشکوں میں لپیٹ کر پیش کیا ہے، جو کہ انسانی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ "لفافے” کا استعارہ زندگی کی مشکلات اور مایوسیوں کو بھیجنے کی طرف اشارہ کرتا ہے، یعنی یہ کہ غم کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اسے دنیاوی رواج یا الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
تیسرے شعر میں یعقوبی نے دوستی اور رشتوں کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ دوست تو بہت ہیں، لیکن کچھ تعلقات ایسے ہیں جو وقت اور مقام کی قید میں نہیں آتے۔ یہ شعر معاشرتی تعلقات کی فطرت اور انسان کی اندرونی دنیا کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔
چوتھے شعر میں شاعر نے ایک بہت گہرا نکتہ پیش کیا ہے۔ یہاں "حضرت شیخ” کا ذکر دراصل معاشرتی شخصیات یا رہنماؤں کی طرف اشارہ ہے، جو اکثر اندھیروں میں رہتے ہیں اور اجالے میں سامنے نہیں آتے۔ یہ ان لوگوں پر شاعر کی طرف سے ایک گہرا طنز ہے جو عوامی یا مذہبی سطح پر دکھاوا کرتے ہیں، لیکن ان کا اصل کردار چھپا ہوا ہوتا ہے۔
پانچویں شعر میں شاعر نے دنیا کے مادی اور ظاہری معیار پر اعتراض کیا ہے۔ یہاں "چشمے” کا استعارہ دنیاوی نظریات اور معیار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
چھٹے شعر میں یعقوبی نے اپنے آپ کو آزاد بادلوں سے تشبیہ دی ہے۔ بادل جو آوارہ ہواؤں کے ساتھ ادھر ادھر پھرتے ہیں، مگر کسی کے قبضے میں نہیں آتے۔ یہ تشبیہ انسان کی آزاد فطرت کو بیان کرتی ہے، جسے کوئی قوت یا اختیار پابند نہیں کر سکتا۔
آخری شعر میں شاعر نے اپنے نرم لہجے کو بیان کیا ہے، جو غزل کے مجموعی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے۔ اشرف یعقوبی کا طرز کلام نہایت دلچسپ اور لطیف ہے۔
اشرف یعقوبی نے اپنی غزل میں سادہ لیکن خوبصورت زبان استعمال کی ہے۔ ان کے اشعار میں رچاؤ اور روانی ہے جو کلاسیکی غزل کی روایات کو زندہ رکھتے ہیں، جبکہ شاعر نے جدید دور کے مسائل اور جذبات کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اشعار میں بالکل سادہ الفاظ کے ذریعے بڑے معانی و مفاہیم کا اظہار کیا گیا ہے، جو کہ ہر عمر کے قارئین کے دل پر نقش ہوجاتے ہیں۔
اس غزل میں شاعر نے تراکیب اور استعاروں کا خوبصورت استعمال کیا ہے، جس سے غزل کی اثرانگیزی بڑھ جاتی ہے۔ ہر شعر اپنے وژن اور بحر کے حساب سے مکمل اور مفہوم کے اعتبار سے عام فہم ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اشرف یعقوبی کی غزل ایک اعلیٰ درجہ کی اردو شاعری کا نمونہ ہے، جس میں محبت، غم، دوستی، اور انسان کی خودی کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے اشرف یعقوبی کی غزل پیش خدمت ہے۔
غزل
*
ان کی آنکھوں کے اشارے میں نہیں آئیں گے
ہم کسی طور سے جھانسے میں نہیں آئیں گے
وہ جو لکھی گئیں اشکوں سے کہانی غم کی
کیسے بھیجوں کہ لفافے میں نہیں آئیں گے
جا تو سکتے ہیں کئی دوستوں کے گھر لیکن
وہ کبھی آپ کے حجرے میں نہیں آئیں گے
آج کل ان کے مریدان اندھیرے بھی ہیں
حضرت شیخ اجالے میں نہیں آئیں گے
من کی آنکھوں سے ہمیں دیکھ لے”تو” ائے دنیا
ہم تری آنکھوں کے چشمے میں نہیں آئیں گے
ہم وہ بادل ہیں لئے پھرتی ہے آوارہ ہوا
خواب میں آئیں گے قبضے میں نہیں آئیں گے
نرم لہجے کے وہ شاعر ہیں جناب اشرف
بن کے ٹھوکر کبھی رستے میں نہیں آئیں گے
ازقلم: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
rachitrali@gmail.com