ساہتیہ اکادمی، دہلی اور میاسی اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام ایک روزہ سمپوزیم کا انعقاد
چینئی(ساجد حسین ندوی) ساہتیہ اکادمی اور میاسی اردو اکیڈمی چنئی کے زیر اہتمام ایک روزہ سمپوزیم بعنوان ــ’’ حاشیائی اردو ادب اور شعری نشست‘‘ کا انعقاد نیوکالج کیمپس میں بتاریخ 19ستمبر 2024 کوہوا، جس میں ملک کے نامور ادبا اور شعرا نے شرکت کی۔
پروگرام کا آغا نیوکالج کے طالب علم عزیزم سید خالد حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور عزیزم فاضل شریف نے بارگاہ رسالت ِمآب ﷺ میں نعتیہ کلام کا نذرانہ پیش کیا۔ جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر غیاث احمد، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو نیوکالج نے انجام دئے۔ میاسی اردو اکیڈمی کے کنوینرجناب محمد روح اللہ صاحب نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تمام مہمانوں کا استقبال کیا اور حاشیائی اردو ادب پر مختصر روشنی ڈالی۔
ساہتیہ اکادمی ، دہلی کے اردواڈوائزری بورڈ کے کنوینر جناب چندر بھان خیال صاحب نے اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا : ہندوستان میں تقریبا 80فیصد پسماندہ طبقہ ہے اور اس میں سے کچھ ایسے ہیں جو برسوں سے حاشیے پر ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہ اب ہے اور اس سے پہلے کوئی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اردو ادب میں منشی پریم چندنے سب سے پہلے ان کی آواز بلند کی پھر ترقی پسند تحریک کے بعد بہت سے شعرا ء اور ادبا نے ان کو اپنا موضوع بنایا۔
میاسی کے معتمد اعزازی جناب الیاس سیٹھ صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میاسی اپنے قیام اول سے ہی اردو کی ترقی کے لیے کوشش کررہاہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میاسی نے اردو کو گھر گھر پہونچانے کا عزم کیا ہے اوراس عزم کو پورا کرنے کے لیے جنوری 2024میںفری آن لائن اردو کلاسیس کاآغاز کیا گیا جس سے ملک وبیرون ملک کے 500سے زائد طلبا وطالبات اور عمر رسیدہ مرد وعورت مذہبی تفریق کے بغیر مستفید ہورہے ہیں اور اردو زبان سیکھ رہے ہیں۔
بنگلور سے تشریف لائے مہمان اعزازی مشہور شاعر جناب ماہر منصور صاحب نے شاعری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوں تو ہندوستان میں بہت سے طبقات ایسے ہیں جو حاشیے پر ہیں لیکن سب سے زیادہ جن کو نظر انداز کیا گیا ہے وہ مخنث طبقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان سے ملاقات کرکے میں نے ان کی باتیں سنیں اور ان کے درد وکرب کو محسوس کیا اور ان کے بہت سے کنڑ اشعار کا اردو میں ترجمہ بھی کیاہے۔
میاسی اردو اکیڈمی کے چیئر مین اور ساہتیہ اکادمی کے اردو اڈوائزری بورڈ کے ممبر جناب اے محمد اشرف صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ : پچھڑے اور پسماندہ لوگوں کو ہمیشہ سے ہی نظر انداز کیا جاتارہاہے۔ آج یہ سمپوزیم اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آج سے قبل شہر مدراس میں اس موضوع پر کبھی کوئی سیمینار منعقد نہیں ہوا ۔انہوں نے مزید کہا کہ اردو ایک ایسی زبان ہے جس نے ہر طبقہ کی آواز بلند کی ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس زبان کو خود بھی پڑھیں اور اپنے نسلوں کو بھی اردو سے واقف کرائیں کیونکہ اردو میں جہاں شاعری اور ادبی لٹریچر موجود ہے ،وہیں اس میں مذہبی مواد بھی بہت زیادہ مقدار میں ہے۔
اس افتتاحی پروگرام کے بعد مقالہ کے سیشن کا آغاز ہوا جس کے پہلے سیشن کی صدارت ڈاکٹر امان اللہ ایم صاحب نے کی جبکہ ڈاکٹر سعیدالدین ، ڈاکٹر غضنفر اقبال، ڈاکٹر شکیلہ غوری اور ڈاکٹر طیب خرادی نے حاشیائی اردو ادب کے حوالے سے مختلف انداز میں اپنے اپنے مقالے پیش کئے۔ دوسرے سیشن کی صدارت ڈاکٹر پروین فاطمہ نے کی جس میں ڈاکٹر غیاث احمد، پروفیسر ساجد حسین، پروفیسر سید باقر عباس اور پروفیسر سید شبیر حسین نے اپنے اپنے مقالے پیش کئے۔
اخیر میں شعری نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت چندر بھان خیال صاحب کی اور ملک کے نامور شعراء نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ جس میں قابل ذکر شاہد مدراسی، کاتب حنیف،اکبر زاہد، اسانغنی مشتاق، صداء الآمری کے نام شامل ہیں۔ اخیر میں ساجد حسین نے جملہ مہمان کرام کا شکریہ اد اکیا اور یہ ایک روزہ سمپوزیم اختتام پذیر ہوا۔