تحریر: محمد قمر الزماں ندوی
(استاذ:مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ) 9506600725
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیشکش/ حافظ آفاق عادل
ہرمومن کی دلی تمنا خواہش اور آرزو ہوتی ہے کہ اسے زندگی میں(جیتے جی) حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت نصیب ہو جائے ، وہ طواف کعبہ کرے،صفا و مروہ کا چکر لگائے، ملتزم سے چمٹ کر روئے ، میزاب رحمت کے پاس دعائیں کرے، آب زمزم سے اپنی تشنگی اور پیاس کو بجھائے۔ وہ ان راہوں اور راستوں پر چلے جہاں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک قدم پڑے، وہیں سجدہ میں سر جھکائے جہاں اس کے محبوب نے نماز پڑھی، ان مقامات کی زیارت کرے ،جنھیں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت حاصل ہے، اس فضا میں سانس لے جہاں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انفاس کی عطر بیزی ہے ،اس آب حیات سے سیراب ہو جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات بخش لبوں نے مس کیا ہے ۔
حجاز کی سرزمین بطور خاص حرمین سے گہری وابستگی اور شیفتگی ہر مومن کے مزاج و عناصر ترکیبی میں شامل ہے۔ مسلمانوں کا سرزمین حجاز سے عموما اور خاک یثرب سے خصوصا ایسا گہرا تعلق اور روحانی عشق ہے کہ ان کو وہاں مرنے کی آرزو اور وہاں دفن ہونے کی تمنا رہتی ہے۔ ان کے دل کی یہ خواہش اور آرزو ہوتی ہے کہ
*مدینہ کی زمیں کے گر نہ لائق ہو مرا لاشہ*
*کسی صحرا میں واں کے طعمہ ہوں دام اور دو کا*
*تمنا ہے درختوں پر ترے روضہ کے جا بیٹھے*
*قفس جس وقت ٹوٹے طائر روح مقید کا*
غرض مکہ و مدینہ ہر مسلمان کی روح کا نشیمن اور دل کا مسکن ہے، اس کو وہاں مرنے کی آرزو اور وہاں کی زمین میں دفن ہونے کی تمنا رہتی ہے:
*رات دن ہے خیال طیبہ کا*
*تن یہاں ہے تو من مدینے میں*
*خاک طیبہ کا دو کفن مجھ کو*
*مجھ کو کردو دفن مدینے میں*
جب مومن کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے اور وہاں حاضری مقدر ہوتی ہے اور کعبہ پر اس کی نظر پڑتی ہے تو دل کی کیفیت بدل جاتی ہے، دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں ،آنکھیں نم اور اشکبار ہو جاتی ہیں، روح رقص کرنے لگتی ہے ،خوابیدہ جنوں بیدار ہو جاتا ہے، ایمان کی حرارت تیز ہو جاتی ہے اور اظہار عقیدت کی دھن میں اظہار تمنا بھول جاتا ہے اور یوں گنگنانے لگتا ہے:
کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر
کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
یوں ہوش و خرد مفلوج ہوئے
دل ذوق تماشا بھول گیا
اور کعبہ کی زیارت اور وہاں عبادت سے فارغ ہوکر جب قافلہ مدینہ کی جانب رواں دواں ہوتا ہے تو اس کے دل کی یہ آواز ہوتی ہے کہ آج تیرا سب سے بڑا ارمان اور سب سے بڑی خواہش پوری ہورہی ہے ،اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک گنہگار امتی کو اپنے محبوب کے آستانہ پر سلام پیش کرنے کی عزت حاصل ہورہی ہے:
چلا ہوں ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
ایک زائر مدینہ کا یہ تاثر اور احساس ہوتا ہے کہ بار الہا! یہ بیداری ہے یا خواب ، کہاں یہ ارض پاک اور کہاں یہ بے مایہ مشت خاک ،کہاں مدینہ کی سرزمین اور کہاں اس ننگ خلائق کی جبیں ، کہاں سید الانبیاء کا آستانہ اور کہاں اس روسیاہ کا سروشانہ ، کہاں وہ پاک سرزمین جس پر سر کے بل چلنا، پلکوں کو بچھانا اس کی خاک کا سرمہ بنانا جس کو نصیب ہو جائے، تو اس کی قسمت کا ستارہ جاگ جائے، اور اس کا نصیبہ بیدار ہو جائے، اور کہاں ایک آوارہ ناکارہ بے تکلف اسے پامال کرنے کی ہمت و جرأت اور جسارت کر بیٹھا ۔
تیرے در کی خاک ہی سرمہ بنانے کی ہے چیز
توڑنا دم تیرے در پر جان و دل سے ہے عزیز
زائر مدینہ جب جب روضئہ رسول اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مواجہہ شریف میں حاضر ہوکر دردو و سلام پڑھتا ہوگا، تو اس کے دل کی کیفیت عجیب و غریب ہوتی ہوگی، اور جوار نبوی کی برکت سے ایمانی عہد کی تجدید ،گناہوں پر ندامت و شرمساری ،انابت الی اللہ اور توبہ و استغفار کی جو لہریں اس وقت اس کے دل اور قلب میں اٹھتی ہوں گی اور محبت نبوی کے جو جذبات موجزن ہوتے ہوں گے اور محبت و ندامت کے ملے جلے جذبات آنکھوں سے جو آنسو گراتے ہوں گے اس وقت اس کو شفاعت نبوی کی ،بلکہ اپنی بخشش کی امید ہونے لگتی ہوگی ۔
مدینہ سے رخصتی کے وقت منظر کیا ہوتا ہوگا؟ کہ آنکھیں آنسوؤں سے تر اور لبریز ،لبوں پر آہیں ،چہرہ اترا ہوا، دل مغموم و منتشر اور وہاں سے روانہ ہوتے کے بعد اور واپسی پر ہجر و فراق، دوری و مہجوری کی جو کیفیت طاری ہوتی ہوگی، وہ صرف وہی جان سکتا ہے ، جس کو حج و عمرہ اور زیارت مدینہ کی سعادت نصیب ہوئی ہو۔ اللہ کرے ہر مومن کی یہ آرزو اور خواہش پوری ہو، اوران کو ارض مقدسہ کی زیارت نصیب ہو۔ آمین یا رب العالمین۔
بچپن سے یعنی شعور و آگہی کی دولت جب سے ملی ہے، دل کا ارمان، اور خواہش و تمنا یہی رہتی تھی کہ اس ارض مقدس پر حاضری کی سعادت نصیب ہو جائے اور وہاں پہنچ کر کعبہ کی دیدار سے مشرف ہوا جائے۔ مسجد نبوی میں حاضر ہوکر خاک یثرب کا نظارہ کروں اور روضئہ اطہر پر حاضری دے کر اپنی طرف سے اور امت مسلمہ کی طرف سے سلام پیش کروں ۔ لیکن اللہ کی حکمت اور مصلحت اللہ ہی جانے ،ابھی تک اس سعادت سے محروم ہی رہا ۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر چیز کا وقت متعین ہوتا ہے ۔ رمضان سے پہلے دل کا روگ لگا، اس روگ نے شدت اختیار کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور آپ سب کی دعاؤں سے شفا اور صحت کی دولت بخشی۔ اب برسوں کی یہ آرزو پوری ہورہی ہے اور سعادت بھی نصیب ہونے جارہی ہے کہ اللہ کے گھر کا دیدار اور طواف کروں، اپنی مرادیں مانگوں اور خاک یثرب پہنچ کر مسجد نبوی اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت کروں ، اور روضئہ رسول پر سلام پڑھوں، اور آپ سب کا بھی سلام پہنچاؤں ۔
4/ اکتبوبر بروز جمعہ گروپ کے ساتھ یہ مبارک سفر کلکتہ سے وایا دبئی ہورہا ہے۔ واپسی 21/ اکتوبر کو ہے۔ پندرہ دن کا یہ سفر ہے، شروع کے نو دن مکہ مکرمہ میں اور چھہ دن مدینہ منورہ میں رہنا ان شاءاللہ مقدر ہوگا ۔ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اہلیہ بھی اس سفر میں شریک سفر ہے ۔ آپ سب قارئین سے درخواست ہے کہ اس سفر کے لیے خصوصی طور پر دعا فرمائیں کہ یہ سفر آسان رہے، عند اللہ مقبول ہو جائے اور تمام ارکان و واجبات اور سنن و مستحبات کیساتھ یہ عبادت تکمیل کو پہنچے، اور کعبہ کے دیدار کے وقت جو بھی دعا اپنے لیے آپ سب کے لیے اور امت مسلمہ کے لیے کریں، وہ سب بارگاہ ایزدی میں قبول ہو جائے ۔ آمین۔
ذیل میں عمرہ کے احکام و مسائل کو ہم اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں، تاکہ یہ مسائل مستحضر رہیں اور ہمارے جو قارئین بھی عمرہ کے سفر پر جائیں ان کے لیے مسائل کا جاننا آسان ہو۔
عمرہ کے احکام و مسائل
عمرہ٫٫ کے اصل معنی زیارت و ملاقات کے ہیں۔
فقہ کی اصطلاح میں مخصوص شرائط کے ساتھ بیت اللہ شریف کی زیارت کا نام عمرہ ہے۔
احادیث میں حج کی طرح عمرہ کی بھی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے گناہوں کے لئے کفارہ ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک کے عمرہ کو خصوصی درجہ و مقام حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حج کے برابر ثواب کا حامل قرار دیا ہے۔
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ،یہ اللہ کی دعوت پر آئے ہیں ،یہ جو کچھ خدا سے مانگتے ہیں ،خدا تعالیٰ ان کو عطا فرماتا ہے ۔
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،،جو شخص اپنے گھر 🏠 سے حج یا عمرے کی نیت سے روانہ ہوا اور راستے ہی میں اس کا انتقال ہوگیا،تو وہ شخص بغیر حساب جنت میں داخل ہوگا ،اللہ تعالیٰ طواف کرنے والوں پر فخر کرتا ہے ۔۔
رسول اللہ صلی اللہ نے واقعہ حدیبیہ کو لیکرچار عمرے فرمائے ہیں۔
» پہلا ٦/ہجری میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ تشریف لائے اور وہاں صلح طے پائی،یہ عمرہ نامکمل رہا، کیونکہ مشرکین مکہ کی رکاوٹ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ نہ کر پائے-
»دوسرا عمرہ آئندہ سال اس عمرہ کی قضا کے طور پر،اس عمرہ کو ٫٫عمرۃالقضاء ،، کہا جاتا ہے۔
» تیسرا عمرہ فتح مکہ کےموقع سے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین سے مدینہ جاتے ہوئے مقام جعرانہ سے احرام باندھ کر عمرہ کیا، یہ عمرہ ٨/ہجری میں ہوا-
» چوتھا حجۃالوداع میں: کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع سے حج قران کا احرام باندھا تھا، جس میں حج وعمرہ دونوں جمع ہوتا ہے،اور یہ تمام ہی عمرے ماہ ذی القعدہ میں کئے گئے تھے۔
عمرہ کا حکم
عمرہ کے مشروع ہونے پر امت کا جماع ہے۔البتہ اس میں اختلاف ہے کہ عمرہ کا حکم کیا ہے ۔شوافع اور حنابلہ کے نزدیک واجب ہے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: واتموا الحج والعمرۃ للہ (یعنی حج اور عمرہ کو پوری طرح ادا کرو)
حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے، تاہم احناف کے ہاں بعض مشائخ نے عمرہ کو واجب بھی قرار دیا ہے۔علامہ کاسانی نے اسکو واجب کہا ہے۔ صاحب جوہرہ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے، تاہم احناف کے یہاں فتویٰ عمرہ کے سنت مؤکدہ ہونے پر ہے، کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کیا یہ واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں،البتہ عمرہ کرنا افضل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا یہ واجب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ عمرہ کرنا افضل ہے، وان من یعتمروا ھو افضل جہاں تک آیت قرآنی کی بات ہے تو اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ۔ حج وعمرہ کی ابتدا ہو جائے یعنی حج وعمرہ کا احرام باندھ لیا جائے تو پھر اس کی تکمیل واجب ہو جائیگی، اس کے قائل حنفیہ بھی ہیں، کیونکہ کوئی بھی نفل اپنے آغاز کے بعد حنفیہ کے یہاں واجب ہو جاتا ہے، جن حضرات کے یہاں عمرہ واجب ہے، انکے یہاں بھی زندگی میں ایک ہی بار واجب ہے، اور اگر حج کے ساتھ عمرہ کر لیا جائے تو یہی عمرہ اس کے لئے کفایت کر جائیگا ۔
اوقات
مالکیہ کے یہاں ایک سال میں ایک سے زیادہ عمرہ کرنا مکروہ ہے۔ احناف، شوافع،اور حنابلہ کے نزدیک عمرہ کی تکرار میں کوئی قباحت نہیں،کیونکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک ماہ میں دو عمرہ کرنا منقول ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمرہ کے بعد دوسرے عمرہ کو درمیان کے گناہوں کے لئے کفارہ قرار دیا ہے ،نیز حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہر ماہ ایک عمرہ کیا جائے،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک سال میں کئی عمرہ کئے ہیں۔ البتہ حنفیہ کے نزدیک نو،دس، گیارہ،بارہ، تیرہ،ذی الحجہ کو عمرہ کرنا مکروہ تحریمی ہے، گو ان دنوں میں بھی عمرہ کرے تو عمرہ ہو جائے گا ۔ زمانہ جاہلیت میں حج کے مہینے (شوال،ذو القعدہ ،ذوالحجہ) میں عمرہ کرنے کو ناپسند کیا جاتا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ عمرہ قیامت تک کے لئے حج میں داخل کر دیا گیا ہے۔
ارکان و واجبات
عمرہ کے دو ارکان ہیں: احرام اور بیت اللہ شریف کا طواف۔ اور واجبات دو ہیں: صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور بال کامنڈانا یا کٹانا۔
کچھ ضروری احکام
عمرہ کے سنن و آداب وہی ہیں جو حج کے ہیں، چار طواف کرنے سے پہلے جماع کیوجہ سے عمرہ فاسد ہو جاتا ہے، حج کے احرام میں جن چیزوں سے بچنا ضروری ہے عمرہ کے احرام میں بھی ان سے بچنا ضروری ہے۔عمرہ میں تلبیہ پڑھنا مسنون ہے،جوں ہی طواف شروع کرے تلبیہ روک دے، تلبیہ کہتے وقت زبان سے لبیک بالعمرة کہے یا دل میں عمرہ کا ارادہ کرے۔
جو لوگ حدودِ میقات سے باہر کے رہنے والے ہوں اور عمرہ کے لئے آرہے ہوں، ان کے لیے میقات سے احرام باندھنا واجب ہے، اور جو لوگ میقات کے اندر اور حرم سے باہر رہنے والے ہوں، ان کے لیے واجب ہے کہ حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے ہی احرام باندھ لیں، جو لوگ مکہ میں رہتے ہوں یا حدود حرم کے اندر واقع ہوں، ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ حدودِ حرم سے باہر جاکر مقام حل سے احرام باندھ کر آئیں، البتہ افضل ہے کہ تنعیم سے احرام باندھا جائے جہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب حکم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے احرام باندھا تھا، اس وقت وہاں تمام سہولتوں سے آراستہ بڑی عظیم الشان مسجد ،مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام سے تعمیر ہوگئ ہے۔
حدود میقات سے بلا احرام گذرنا
اگر کوئی شخص حدود میقات کے باہر سے مکہ میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہو، تو اس کے لئے احرام باندھ کر آنا ضروری ہے، چاہے اس کی نیت حج وعمرہ کی رہی ہو یا نہیں، بہر حال اسے احرام باندھ کر عمرہ کرکے ہی حلال ہونا پڑے گا، اب کسی شخص کو بار بار اس طرح آنے کی ضرورت پیش آتی ہو تو اس کے لئے فقہاء نے یہ صورت بتائی ہے کہ وہ حدودِ میقات کے اندر علاوہ حل پر کسی مقام کی نیت کر لے اور بلا احرام وہاں آجائے پھر وہاں سے بلا احرام مکہ آجائے، کیونکہ حدود میقات کے اندر قیام پذیر لوگوں کے لئے بلا احرام مکہ میں داخل ہونا جائز ہے، میقات سے باہر رہنے والوں کے لئے بلا احرام میقات سے گذرنے کی ممانعت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے۔(مستفاد قاموس الفقہ مادہ عمرہ)
نوٹ / اس مضمون میں قاموس الفقہ، رہنمائے عمرہ اور بانگ حرم اور دیگر کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ۔
One thought on “برسوں کی تمنا اور آرزو اب تکمیل کے قریب !”