اے خاصئہ خاصان رسل وقت دعا ہے!

دربار رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں حاضری !

تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تیری کہ مقبول خدا ہے

آج 19/اکتوبر صبح پھر حرم نبوی میں فجر کی نماز کے بعد روضئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہونے اور درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت ملی، اپنا اور جن لوگوں نے سلام پیش کرنے کو کہا تھا، ان سب کا بھی سلام پیش کیا ، خلقت کثیر تھی، بھیڑ کافی زیادہ تھی ،کافی انتظار کے بعد نمبر آیا ،اس درمیان ملک و ملت کی جو خبریں موصول ہوئیں، خصوصا یحییٰ السنوار کی شہادت ،
فلسطین اور غزہ کی موجودہ صورت حال اور ملک عزیز ہندوستان کی ،اس وقت کی نازک صورتحال، شملہ اور بہرائچ اور دوسرے شہروں سے ملنے والی خبریں ،ان سب نے دل و دماغ پر بہت اثر ڈالا اور طبیعت بہت متاثر رہی ، روضئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے وقت مرحوم الطاف حسین حالی کے اشعار، جو ،، دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں،، کے عنوان سے ہیں، بے ساختہ یاد آنے لگے اور اس نظم کے متعدد اشعار دل ہی دل میں روضئہ رسول پر پڑھنے اور گنگنانے کی سعادت ملی کہ

اے خاصئہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسریٰ
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے فروزاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی ہے نہ دیا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ لب آکے پڑا ہے
جس دین نے تھے غیروں کے دل آکے ملائے
اس دین میں خود بھائی سے بھائی جدا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
ہے دین ترا اب بھی وہی چشمئہ صافی
دینداروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے
دولت ہے نہ عزت ہے نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دور زماں میٹ رہا ہے
فریاد ہے اے کشتئی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تیری کہ مقبول خدا ہے

پھر اچانک اقبال مرحوم کی نظم اے روح محمد! کے اشعار بھی ذہن میں تازہ ہوگئے

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے
ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد! ص
ایات الہی کا نگہبان کدھر جائے ؟

یہ اشعار زبان پر تھے، اور دل کی کیفیت کچھ اور ہو رہی تھی کہ اب تو کل یہاں سے رخت سفر باندھنا ہے اور اس دیار حرم اور روضئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو الوداع کہنا ہے ، جی بھر کر حرم نبوی اور روضئہ اطہر کو دیکھ لوں ، لیکن پولیس والے کہاں ٹھرنے دے رہے تھے، وہ تو حاجی حاجی حرک حرک کی آواز لگا کر بھیڑ کو ہٹا رہے تھے، اور ایسا ضروری بھی تھا کہ نظم و نسق کو برقرار رکھنا بھی، بے حد ضروری ہوتا ہے، دور جاکر کھڑا ہوگیا اور وہیں سے روضئہ رسول کا دیدار کرتا رہا اور کلیم عاجز مرحوم کے یہ اشعار ذہن میں گردش کرتے رہے، جو انہوں نے روضئہ رسول پر حاضری کے موقع پر کہا تھا کہ

زخم کھائے ہوئے سر تا بہ قدم آئے ہیں
ہانپتے کانپتے یا شاہ امم آئے ہیں
سرنگوں آئے ہیں بادیدئہ نم آئے ہیں
آبرو باختہ دل سوختہ ہم آئے ہیں
کھو کے بازار میں سب اپنا بھرم آئے ہیں
شرم کہتے ہوئے آتی ہے کہ ہم آئے ہیں
آپ کے سامنے جس حال میں ہم آئے ہیں
ایسے مجرم کسی دربار میں کم آتے ہیں
شرق سے غرب کہیں کوئی ٹھکانہ نہ ملا
ٹھوکریں کھا کے ہر سمت سے ہم آئے ہیں
گرچہ بے سوز ہیں بے ساز ہیں بے ساماں ہیں
پھر بھی خالی نہیں سرکار میں ہم آئے ہیں
آپ کے سائہ دامن سے جو ہم دور ہوئے
ٹوٹ کر چار طرف اہل ستم آئے ہیں
وہ یہ کہتے ہیں کہ تم لوگ اسی قابل ہو
بہت آئیں گے مصائب ابھی کم آئے ہیں
اک نگاہِ غلط انداز کے سائل بن کر
مجرمان امم یا شاہ امم آئے ہیں
اب تو اس در سے نہ سر اٹھے گا ان شاءاللہ
جان دے دیں گے یہی سوچ کے ہم آئے ہیں ۔

بار بار یہ احساس ستائے جارہا تھا کہ کہ
اب تو چل چلاؤ کا وقت قریب آنے کو ہے کل یکشنبہ 20/ اکتوبر کو تین بجے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری نظر ڈال کر مدینہ منورہ ائیر پورٹ سے وایا دبئی کلکتہ واپسی ہے اور وہاں سے پھر گھر جانا ہے ۔ اس لئے دل کہہ رہا تھا کہ خوب نظر بھر کر حرم نبوی اور روضئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو کہ پھر یہ سعادت نصیب ہو یا نہ ہو، عمر وفا کرے یا نہ کرے اور زائر حرم جناب حمید صدیقی مرحوم کے یہ نعتیہ اشعار حافظہ میں گردش کرنے لگے کہ

قابل ضبط غم قلب و جگر ہوکہ نہ ہو
رخ سے پردہ تو اٹھے تاب نظر ہوکہ نہ ہو
آج جی بھر کے حمید ان کا نظارہ کرلو
پھر خدا جانے یہ انداز نظر ہوکہ نہ ہو
حال غم ان کو بہر حال سنانا ضرور
نالہائے دل مضطر میں اثر ہوکہ نہ ہو
دل بھر آیا ہے تو جی کھول کے رو لینے دو
پھر کبھی جوش پہ یہ دیدئہ تر ہوکہ نہ ہو
در و دیوار سے پھوڑ کے مرجانے دو
پھر کبھی کوئے طیبہ میں گزر ہوکہ نہ ہو
اور کچھ لطف اٹھا لوں میں جبیں سائی کا
پھر کبھی اس در والا پہ یہ سر ہوکہ نہ ہو
یہ خیال اور بھی دیوانہ کئے دیتا ہے
دیکھئے پھر کبھی مدینہ کا سفر ہوکہ نہ ہو
یہی بہتر ہے کہ اب جان تصدق کر دوں
ملتفت پھر نگہ خاص ادھر ہوکہ نہ ہو
اک نظر دیکھ لو پھر گنبد خضریٰ کو
منظر خاص یہ پھر پیش نظر ہوکہ نہ ہو

محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے