مسلمانو! اللہ سے ڈرو سودی کاروبار چھوڑ دو،،تاکہ ہم کامیاب ہوسکیں

تحریر: (مولانا)محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار وصحافی حیدرآباد
9849099228

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ۝ وَاَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝
( سورۃ عمران آیات ۱۳۰تا۱۳۲)
اے لوگوجو ایمان لائے ہو،یہ بڑھتا چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو،امید کہ فلاح پاؤگے۔ اس آگ سے بچو جو کافروں کیلئے مہیا کی گئی ہے۔ اور اللہ اور رسول کا حکم مان لو،توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔
خیر اُمت اور دنیا طلبی
خیر امت کی کچھ مطلوبہ صفات ہیں جس کے بغیر اپنے نصب العین میں یہ امت کامیاب نہیں ہوسکتی، ان مطلوبہ صفات کو پیدا کرنے کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا کلام نازل فرمایا الغرض سود خواری وسودی کاروبار یہ ایسی چیزیں ہیں جس سے انسان کے اندر دنیا طلبی،زرپرستی پروان چڑھتی ہے جس کا لازم طور پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی ہر وقت اپنے مال کے بڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے جس آدمی کے اندر مذکورہ چیزیں داخل ہوجاتیں ہیں تو وہ پھر کسی اجتماعی کام کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے اور نہ انفرادی روحانی ارتقاء کو پہنچ سکتاہے۔ لیکن مسلمان جو خیرامت ہے اور جس کے وجودکا مقصد ہی امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اس کے اندر دنیا طلبی اور مال کی محبت کا دور ہونا از حد ضروری ہے۔
باطل طریقہ پر مال مت کھاؤ
اسی لئے فرمایا جارہا ہے کہ ’’اے ایمان والو‘‘ یہ بڑھتا چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو،امید کہ فلاح پاؤگے۔ سود خواری کے کئی نقصانات ہیں پہلا یہ کہ آدمی پست اخلاق ہوجاتا ہے دوسرا یہ کہ بزدلی و نامردی پیدا ہوتی ہے تیسرا یہ کہ آدمی خود پسند خود غرض ہوجاتا ہے یہ مذکورہ تینوں صفات ایسے ہیں کہ اہل ایمان کو ارتقائی منازل طئے کرنے میں سدراہ بن جاتے ہیں اسی لئے اہل ایمان کو تاکید کی جارہی ہے کہ سود مت کھاؤ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی علیہ الرحمہ اس آیت کے ذیل میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے تذکرہ میں سود کی ممانعت کا ذکر بظاہر بے تعلق معلوم ہوتا ہے۔ مگر شاید یہ مناسبت ہو کہ اوپر اِذْھَمَّتْ طَآئِفَتَانِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلَا میں’’جہاد‘‘ کے موقع پر نامردی دکھانے کا ذکر ہوا تھا،اور سود کھانے سے نامردی پیدا ہوتی ہے دو سبب سے ایک یہ کہ مال حرام کھانے سے توفیق طاعت کم ہوتی ہے اور بڑی طاعت جہاد ہے اور سود لینا انتہائی بخل پر دلالت کرتا ہے کیونکہ سود خوار چاہتا ہے کہ اپنا مال جتنا دیا تھا لے لے اور بیچ میں کسی کا کام نکلا،یہ بھی مفت نہ چھوڑے اس کا علحدہ معاوضہ وصول کرے۔ تو جس کو مال میں اتنابخل ہو کہ خدا کیلئے کسی کی ذرہ بھر ہمدردی نہ کرسکے وہ خدا کی راہ میں جان کب دے سکے گا۔
(حوالہ القرآن الکریم و ترجمہ معانیہ و تفسیر،صفحہ نمبر ۸۶ حاشیہ ۴ مطبوعہ سعودی عربیہ )

حضرت علامہ مودودی علیہ الرحمہ نے اس سلسلہ میں یوں تفہیم فرمائی ہے کہ
سود خواری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سود خواری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ سود لینے والوں میں حرص و طمع،بخل اور خود غرضی اور سود دینے والوں میں نفرت،غصہ اور بغض و حسد۔
غزوہ احد کی شکست میں ان دونوں قسم کی بیماریوں کا کچھ نہ کچھ حصہ شامل تھا۔ (حوالہ تفہیم القرآن صفحہ ۲۸۸ جلد اول حاشیہ ۹۹)
مزکورہ دونوں مفسرین کرام کی تحریریں اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہین کہ سود ایک ایسی بلا ہے جو جہاد جیسے اسلام کی اہم چیز میں آدمی کےلیے رکاوٹ بن جاتی ہے۔
ایک ضروری بات
ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں حکم یوں آیا ہے کہ سود در سود نہ کھاؤ،(سود تو کھایا جاسکتا ہے مگر سود در سود نہ کھایا جائے ) یہ ان کی غلط فہمی یا قرآن سے عدم تعلق کی دلیل ہے۔ مثال کے طور پر کوئی یہ کہے کہ بھائی مسجد میں فلاں برائی مت کرو یعنی گالی گلوچ مت کرو،تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ مسجد کے باہر یہ برے کام کئے جاسکتے ہیں ! حقیقت تو یہ ہے کہ برائی بہر حال برائی ہے جس کے کرنے سے گناہ لازم آتا ہے۔
مولانا مفتی شفیع صاحبؒ ( مفتی اعظم پاکستان) اس سلسلہ میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اس آیت میں سود کھانے کی حرمت و ممانعت کے ساتھ اَضْعَافًا مُضَاعَفَۃْ کا ذکر حرمت کی قید نہیں،بلکہ سود کی قباحت کو واضح کرنے کے لئے ہے،کیونکہ دوسری آیات میں مطلقاً ربوا کی حرمت کا بیان نہایت تشدید و تاکیدکے ساتھ آیا ہے جس کی تفصیل سورۃ بقرہ میں آچکی ہے،اور اَضْعَافًا مُضَاعَفَۃْ کے ذکر میں اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جس کو سود کھانے کی عادت ہوجائے تو خواہ وہ اصطلاحی سود مرکب یعنی سود در سود کے معاملہ سے پر ہیز بھی کرلے تو سود سے حاصل شدہ کمائی کو جب دوبارہ سود پر چلائے گا تو وہ لا محالہ اضعاف مضاعف ہوتا چلا جائے گا،اگر چہ سود خوروں کی اصطلاح میں اس کو سود مرکب یعنی سود در سود نہ کہیں، اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر ایک سود انجام کار اضعاف مضاعف ہی ہوتا ہے۔ (حوالہ معارف القرآن جلد دوم صفحہ ۱۷۶)
اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرو
مضمون کے آغاز میں جو آیات پیش کی گئیں ہیں اس کے آخر میں اللہ تعالیٰ پھر اسی بات کو دھرا رہے ہیں جو کہ اہل ایمان کی عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہے اور جس کی بنیاد پر اہل ایمان فلاح آخرت کو پہنچنے کا سامان حاصل کرسکتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ رحم و کرم کا معاملہ فرماتے ہوئے جنت جیسی نعمت عطا کرے فرمایا اے میرے پیارے بندو جو کچھ بھی احکام، تمہارے لئے نازل کیے جارہے ہیں اس پر عمل کرو اور جو کچھ بھی میرے رسول تمہیں حکم دے رہے ہیں اس پر عامل ہوجاؤ تا کہ مطیع و فرمانبردار بن کر تم میرے رحم و کرم کے مستحق بن سکو۔
سودی کاروبار کے سلسلہ میں نبی کریمؐ کا ارشادیوں آیا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے مروی ہے،فرمایا! ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے،کھلانے والے اور اس کی لکھا پڑھی کرنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔( مسلم)
سودی نظام سے اور سود خوری سے سماج پر جو برا اثرپڑتا ہے اگر ہم ان کا مطالعہ کریں تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سود کھانے والے پر لعنت بھیجنا قطعاً تعجب نہیں۔ اسی لئے کہا گیاہے کہ جو لوگ سود کے متعلق احکام آجانے کے بعد بھی سودی کاروبار سے اجتناب نہیں کرتے ایسے ظالموں کیلئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔
{نوٹ}
سود سے بچنے اور قرض حسنہ کو رواج دینے سے متعلق گزشتہ ٢ جمعہ قبل ایک اور مضمون اسی کالم میں پیش کیا جاچکا ہے۔
حاصل کلام
ان آیات کاحاصل یہ ہے کہ اہل ایمان ایک اونچے منصب پر فائز کئے گئے ہیں لہٰذا ان کی زندگی ہر قسم کی اخلاقی پستی،خود پسندی و خود غرضی سے پاک ہو اور ہر اس چیز سے پر ہیز کریں جو کہ ایک مومنانہ کردار ادا کرنے میں رکاوٹ بنتی ہو۔
آج بعض ادارے بلاسودی بنک کاری کے حسین نام پر (سرویس چارجس کے عنوان سے) سودی بنک کاری کی طرح لوگوں پر ایک دوسرے انداز سےسود کا بار ڈال کر ان چھوٹے کاروباریوں و تاجروں اورضرورت مندوں کا خون چوس رہے ہیں اِنہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ اسطرح معصوم عوام کو دھوکہ دینا بند ہونا بیحد ضروری ہے ، حقیقت یہ ہیکہ یہ ادارے اپنے عمل سے خود کو تو چکمہ دے کر مال بٹور سکتے ہیں ؛ لیکن خداے تعالی کو دھوکہ نہیں دے سکتے!!! ٫ یہ چیز اسلامی تعلیمات کا مزاق اڑانا ہے جو اہل ایمان کا شیوہ ہرگز نہیں۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہے پرواز میں کوتاہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے