مولانا محمد اسلام قاسمی؛ چند تابندہ نقوش

ازقلم: نثار احمد حصیر القاسمی
سیکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک ا سٹڈیزحیدرآباد
فون:9393128156

ٹوٹ پھوٹ کی شکار، معذور وہ بے بس، لاغر وہ بے جان اور مصیبتوں وہ آزمائشوں سے کراہتی ہوئی اس امت مسلمہ کو جن بیماریوں نے جکڑرکھا ہے ان میں سب سے تکلیف دہ اذیت ناک اور خطرناک بیماری یہ ہے کہ یہ امت اور ہماری یہ برادری بولتی زیادہ اور کرتی کم ہے، دعوے تو لمبے لمبے کرتی مگر عمل ندا رد، دھمکیاں بھی دیتی اور ڈراتی دھمکاتی بھی ہے مگر عملی طور پر اپنے قول کی ترجمانی عمل سے کرنے کی کبھی زحمت نہیں کرتی، دعوے تو بہت ہوتے ہیں مگر سب کھوکھلے اور محض زبانی ہوتے ہیں، مصر کے مشہور شاعر و ادیب شوقی ضیف نے ایسے ہی لوگوں کی تصویر کشی کرتے ہوئ اور باتوں کی دنیا میں جینے اور عملی دنیا سے کوسوں دور رہنے والوں کی عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے،اسود الکلام نعام الووعیٰ، یہ باتوں کے شیر اور میدان کارزار کے شتر مرغ ہوتے یا جیسے ضرب المثل ہے، جسم البغال و احلام العصافر ،یہ خچروں کے جسم اور گرلیوں کے خواب والے ہوتے ہیں قرآن کریم نے بھی بے عملی وہ کم عملی کے ساتھ بڑی بڑی باتیں کرنے کو منافقوں کی خصلت بتائی ہے جن کی باتیں بتانے میں تو بڑے کروفر ہوتے ہیں مگر درحقیقت وہ بزدلی وہ خود سپردگی میں نمونہ ہوتے ہیں جبکہ عزت وہ شرف کے حامل وہ لوگ ہوتے ہیں جو حسن کلام وہ حسن عمل کا مجموعہ ہوتے ہیں،
اسی طرح اللہ کے دین اور اس کے علوم کی نشر و اشاعت میں تکلیفوں اور مشکلات کا سامنا کرنا اور خندہ پیشانی سے اسے برداشت کرنا سچے مخلص اور صبر کرنے والے مومن کے بلند اخلاق ہیں، جسے اللہ تعالی نے اپنی رضا وہ خوشنودی کی کلید اور محبوبیت کی منزل قرار دیا ہے، کسی بھی کار خیر میں جب نیت صاف اور خالص ہوتی ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لیے بے سر و سامانی کے باوجود اسباب مہیا ہو جاتے ہیں پھر مشکل و دشوار گزار چیز بھی آسان ہو جاتی ہے اور خالق کائنات اس کا معین وہ مددگار بن جاتا ہے،
اس عالم رنگ و بو میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں ایک تو وہ جو دنیا طلبی جاہ و منصب اور شہرت وہ عزت کو اپنا مطلوب سمجھ کر اسی کے لیے سرگرداں رہتے ہیں، وہ دنیا اور اس کے مفادات کو حاصل کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کر دیتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو دنیا سے بالکل کنارہ کش ہو کر فکر اخرت کے لیے دین کی نشر و اشاعت میں ڈوبے رہتے ہیں یہ دونوں ہی طریقے راہ اعتدال سے ہٹے ہوۓ ہیں، میانہ روی یہ ہے کہ دین و آخرت کی فکر کے ساتھ دنیا سے بھی اپنا حصہ وصول کرنے کی سعی کرے، اور اپنے نفس کو قناعت اور تھوڑے پر راضی رہنے کا خوگر بنائیں اور اللہ کی طرف سے جو ملے خواہ قلیل ہو یا کثیر اسی پر اکتفا کریں، علم کی راہ میں تکلیفوں اذیتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا اور اسے خندہ پیشانی سے قبول وہ برداشت کرنا سچے مخلص اور عزم و حوصلہ رکھنے والے انسان کی صفت ہے،جسے اللہ نے بھی اپنی رضا و خوشنودی کی کنجی اور محبوبیت کا راستہ قرار دیا ہے اس کے بعد اللہ تعالی اسے ہر دو جہاں میں عزت بخشتا اس کے مقام وہ مرتبہ کو بلند کرتا، اور لوگوں کے دلوں میں اسے بسا دیتا ہے،
اس میں شبہ نہیں کہ دین و علم دین کی خدمت کے لیے اگر نیت صاف اور خالص ہو تو اللہ اس کے لیے اسباب مہیا فرما دیتے اور مشکل وہ دشوار کام کو بھی اسان بنا دیتے ہیں اور اس کا دل بے نفسی وہ پرہیزگاری کے مشعل سے روشن ہو جاتا اور خالق کائنات بے سر و سامانی میں بھی اس کا معین و مددگار بن جاتا ہے، نصرت و مدد اور فتح وہ کامرانی کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں،انسان کو اپنی تعمیر اپنی محنت لگن کوشش اور جدوجہد سے کرنی چاہیے،آباء و اجداد جو فنا ہو چکے اور مٹیوں کے اندر بوسیدہ ڈھانچہ بن چکے ہیں ان کے سہارے تعمیر و ترقی اور عروج و بلندی کی خواہش نا پائیدار وہ فضول ہوتی ہے کہ اس سے اگر مقام و مرتبہ حاصل ہو بھی جائے تو فقدان صلاحیت کی وجہ سے جلد ہی اسے زوال کا منہ دیکھنا پڑتا ہے،
جو محض حسب و نسب پر بھروسہ کرتے اور اس راہ سے اگے بڑھنے کی تمنا کرتے ہیں وہ ہمیشہ کمزور وہ ناتواں بار اورکھو کھلا رہتے ہیں جیسے بعض پودے اپنے آپ کھڑے نہیں ہوتے ان کے تنے کمزور ہوتے ہیں ان میں کھڑا ہونے کی صلاحیت نہیں ہوتی انہیں کھڑا کرنے کے لیے کسی چیز کا سہارا دیا جاتا ہے وہ خود کھڑا نہیں ہو سکتے ، یہ سہارا اگر ہٹا لیا جائے تو وہ زمین پر گر پڑتے مرجھا جاتے اور اہستہ اہستہ فنا ہو جاتے ہیں اور جس پودے کے تنے مضبوط ہوتے اور شروع سے ان کی آبیاری ہوتی ہے وہ اپنے اپ کھڑے ہوتے اور تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، یہی حال انسانوں کا ہے کسی کو اگے بڑھنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہوتی مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جو خود اگے بڑھتے اور اپنی دنیا اپ اباد کرتے اور تناور درخت کی شکل میں دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں،
یہ تصویر کے چند نقوش اور بکھرے ہوئے خاکے ہیں انہیں اگر یکجا اور ترتیب دیا جائے تو اس سے جو تصویر نکھر کر ہمارے سامنے اتی ہے وہ ہے میرے مخلص اور نہایت ہمدرد رفیق حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی رحمہ اللہ کی،
اس میں شبہ نہیں کہ ماں باپ کے بعد کسی انسان کی شخصیت کی تعمیر میں اور اسے نکھارنے و مہمیز دینے میں میں سب سے اہم حصہ اساتذہ کا ہوتا ہے، وہ اس کی جسمانی نشوونما میں تو کردار ادا نہیں کرتے مگر فکری نشونما میں ضرور اہم رول ادا کرتے ہیں اس لیے جب کبھی کسی عظیم شخصیت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ان کے اساتذہ اور رفقا کا بھی ذکر کیا جاتا ہے ، کہ یہ بھی شخصیت کو نکھارنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ایسا ہی کچھ میرے رفیق اور محب گرامی حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی کے ساتھ ہوا۔
میں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی اور ۱۹۷۲ء عیسوی میں جامعہ رحمانیۃ خانقا مون گیر میں سال دوم میں داخلہ لیا اور تین سال وہاں زیر درس رہنے کے بعد ۱۹۷۵ء میں دارالعلوم دیوبند حاضر ہوا، اور سالے پنجوں میں داخلہ لیا اس جماعت میں سینکڑوں طلباء تھے میرا معمول ہمیشہ سے استاد کے سامنے والی بینچ پر بیٹھنے اور عبارت پڑھنے کا تھا، میرے ہمدرد دم کا ضلع سے تعلق رکھنے والے حضرت مولانا قمر الزماں صاحب تھے شروع کے چند ایام ہی میں ان سے خاصی شناسائی ہو گئی وہ میرے تکرار میں شریک ہونے لگے درسگاہ میں وہ عموما میرے بازو میں با یا قریب ہی کے سامنے والے بیج پر بیٹھنے لگے، ان کے ساتھ میرے تعلقات گہرے ہوتے چلے گئے،یہاں تک کہ کہیں آنا جانا اور ٹہلنا وہ مطالعہ کرنا بھی ساتھ ہونے لگا، وہ کافی خوش خط تھے اور میری تحریر نہایت پراگندہ ، میں نے کبھی خوش خطی پر توجہ نہیں دی تھی، انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنی تحریر کو عمدہ کر لوں میں نے خواہش کی کہ پہلے عربی خط درست کر لوں پھر اردو پر توجہ دوں گاجو آج تک نہ ہو سکا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں دروس اور اساتذہ کی تقریروں کو عربی میں ہی نوٹ کرتا تھا،اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ مجھے الداعی کے دفتر لے گئے جو دارالحدیث فوقانی کے شمالی مغربی گوشہ کے بڑے سے کمرے میں تھا، مولانا قمر الزماں صاحب کے ہمراہ کسی خالی گھنٹی میں ویاں حاضر ہوا، سامنے کے بنچ پر مولانا بد الحسن قاسمی صاحب ایڈیٹر الداعی جلوہ افروز تھے اور وہ داہنی جانب کے بینچ پر ایک دراز قد وجیہ چہرہ اکھرا بدن اونچا کرتا اور چست پائے جامہ (علی گڑھی) میں ملبوس چوڑی پیشانی اور ہلکی داڑھی کے حامل پروقار شخصیت الدائی کے صفحات کے خامہ فرسایٔی میں محوو منہمک تھے، دعا و سلام کے بعد برادرم مولانا قمر الزمان نے میرا تعارف کرایا اور مدعا پیش کیا، پھر تو ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور استفا دے کا معمول بن گیا وہ روز اول سے وفات سے چند دنوں قبل تک ناچیز کو پیارے ہی سے مخاطب کرتے رہے میں ہی نہیں بلکہ عام طلباء کے ساتھ بھی شفقت و محبت کے معاملے میں وہ اپنی مثال آپ تھے وہ شیریں بیاں مقرر بھی تھے اور شستہ ودل اویز قلم کے مالک بھی تھے، وہ مؤلف و مصنف بھی تھے اور شیر سخن کا ذوق بھی کسی حد تک رکھتے تھے، علم و ادب کا گراں مایا رعب وقار ان کے چہرے سے ٹپکتا، بسا اوقات وہ مجلس کو اپنے چٹکلوں اور پر معزز مزاحیہ کلاموں سے زعفران زار کر دیا کرتے تھے، وضع قطع عام سی تھی مگر علمی وقار ان پر غالب رہتا تھا وہ تربیت کے فن سے واقف تھے جو طلبہ ان سے قریب ہوتے ان سے والہانہ محبت کرنے لگے اور مولانا بھی ان کی بہتر رہنمائی کرنے اور ان کے علمی تشنگی دور کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے، وہ اکثر مجھے عرب سفارت خانوں سے موصول ہونے والے عربی اخبارات اور وہ رسائل دیتے اور اس کا مطالعہ کرتے رہنے اور نئے الفاظ وہ مفرادات کو محفوظ کرنے کی تلقین کرتے تھے جس نے میرے اندر عربی زبان وہ ادب کے شوق کو مہمیز دیا وہ اور خود مولانا بد الحسن صاحب بھی اردو اخبارات کے بعض مضامین کا عربی میں ترجمہ کرنے کا حکم دیتے اور اس کی تصحیح وقطع برید وہ بعید کے بعد اسے اداعی میں شائع بھی کر دیا کرتے تھے جو میرے طالب علمانہ زندگی میں قابل فخر ہوا کرتا اور حوصلے کو بلند کرنے کا کام کرتا تھا خاص طور پر حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب کے جدید سائل سے متعلق فتاوے کی تعریب کے لیے دیتے تھے اور مفتی صاحب بھی میرے کیے ہوئے ترجمے کی بڑی تحسین کرتے جس نے میرے اندر خود اعتمادی پیدا کی،
اللہ رب العزت والجلال نے انہیں ذہانت و فطانت سے بھی وافر حصہ عطا کیا تھا زمانہ طالب علمی ہی سے وہ اپنے ہم درسوں میں نما یاں رہے اساتذہ درس کو محفوظ کر لیتے اور جو مشکل عبارتیں عام طلبہ کو سمجھ میں نہ اتی اسے وہ آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے ان کا یہ جوہرہ جوہر اساتذہ کے لیے بھی باعث تحسین ہوتا تھا اساتزہ ان کی صلاحیت کے بارے میں رطب جوہر السان رہتے تھے خود حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب ہاضمیر رحمہ اللہ نے میرے سامنے ان کی صلاحیتوں کی ستائش کی وہ ان کے بے حد قدر شناس تھے، وہ اپنے تمام اساتذہ کا احترام کرتے ان کے سامنے بجچھے رہتے اور تواضع کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے وہ بڑی محنت اور گہرے مطالعے کے بعد اس طرح پڑھاتے جیسے یہی حاصل زندگی ہو ہر سبق کا گہرا مطالعہ کرتے اور کوشش کرتے کہ سبق سے متعلق جتنے پہلو ہیں سب کو حل کرتے ہوئے اگے بڑھیں کوئی تشنگی باقی نہ رہے وہ جب تک خود مطمئن نہ ہوتے آگے سبق نہیں بڑھاتے ان کی کوشش ہوتی کہ کمزور سے کمزور طالب علم بھی سبق کا مضمون سمجھ لے عبارت سے منطبق کرتے اور کبھی ایک بات کئی کئی بار دہراتے، سبق سے متعلق جو بھی سوال ہوتے اور جتنے پہلو ہوتے اسے ذکر کر کے اس کا جواب دیتے اگر کوئی نا معقول سوال بھی ان سے کیا جاتا تو وہ اس پر خفا نہیں ہوتے اور حوصلہ شکنی کرتے بلکہ میرے پیارے کر کے جواب دیتے اور مطمئن کرنے کی کوشش کرتے اور اگر کوئی سوال قابل غور ہوتا تو یہ کہنے میں تکلف نہ کرتے کہ مراجعت کے بعد اس کا جواب دوں گا ان کی پوری توجہ حل عبارت پر ہوتی تاکہ طلبہ فہم کتاب کے معاملہ میں دوسرے کے سہارے کے محتاج نہ بنے رہیں بلکہ خود مکتفی ہو جائیں،
دوران تدریس غیر متعلق باتوں سے پرہیز کرتے ہنسی مذاق کی باتوں سے گریز کرتے مگر بسا اوقات طلباء میں نشاط پیدا کرنے کے لیے کبھی لطیفہ چٹکلے اور اس طرح کی باتیں بیان کر دیتے تھے کبھی کسی طالب علم سے مزاق بھی کر لیا کرتے تھے جو اخلاق کے دائرے میں ہوتا، کبھی کسی کا انہوں نے استہزا نہیں کیا اور نہ کسی کی ہمت پست کرنے والی بات کہی بلکہ ہمیشہ طلبہ کی حوصلے افزائی کی انہوں نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کو اپنا رہنا اوڑھنا بچھونا بنایا بلکہ اپنی زندگی کا مشن بنایا اور اخر دم تک اس پر قائم رہے،
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ دارالعلوم پر قبضہ کے بعد جب کہ میں مہند بان اور مدرسہ عالیہ مسجد فتح پوری میں تدر سی خدمات انجام دینے لگا اور السقافہ کی اشاعت کے سلسلہ میں دہلی سے بار بار دیوبند انا ہوتا تھا تو اسی موقع پر ایک مرتبہ انہوں نے اپنے ابتدائی دور اور تعلیمی سفر کے اغاز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے گھر والے تو مجھے انبیاء کی سنت یعنی بکریاں چرانے میں لگانا چاہتے تھے مگر اللہ نے مجھے علم دین کی اشاعت میں لگا دیا ہے، اپ کی پیدائش غالبا ۱۲ جمادی الثانیہ ۱۳۷۳ مطابق16 فروری ۱۹۵۲ء عیسوی کو راجہ بھٹیا نامی گاؤں( ضلع جام تارا بہار (موجودہ جھاڑ کھنڈ) میں ہوئی ہوش سنبھالنے کے بعد روایت کے مطابق بڑوں نے انہیں بھی گلا با نی پر مامور کرنا چاہا،مگر والدہ کا اصرار ہوا کہ وہ اپنے اس جوہر نایاب کو زیور علم سے اراستہ کریں گی جبکہ اس علاقہ میں نہ کوئی مدرسہ تھا اور نہ ہی اسکول اور نہ مساجد میں تعلیم کا نظام ، مگر واقعہ یہ ہے کہ اللہ مسبب الاسباب ہے اگر حوصلہ جواں عزم راسخ جذبہ صادق اور خلوص و لگن ہو تو راہ نکل اتی اسباب پیدا ہو جاتے اور منزل کے رہ گزار آسان ہو جاتی ہے والدہ کے اصرار پر انہیں اپنے مستقر سے ۲۰ کلومیٹر دور ننہیال پہنچا دیا گیا کہ وہاں ان کی تعلیم ہو سکے ، وہاں موصوف نے مولوی محمد لقمان صاحب سے ابتدائی اردو اور قاعدہ بغدادی کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد اپ کو جامعہ حسینیہ گریڈیہ میں داخل کیا گیا پھر مدرسہ اشرف العلوم گلٹی بردوان کے چشمہ فیض سے آپ نےاپنی علمی تشنگی دور کی ۱۹۶۷ء عیسوی میں سہارنپور کے لیے رخت سفر باندھا اور جامعہ مظاہر علوم کی پنجم یعنی شرح جامی کی جماعت میں داخلہ لیا اور علامہ صدیق احمد کشمیری مفتی عبدالقیوم مظاہری، مولانا محمد اللہ رامپوری جیسے یکتائے روزگار اساتزہ سے اکتساب فیض کیا ، اگلے سال یعنی ۱۹۶۲ء میں دارالعلوم دیوبند منتقل ہو گۓ اور ۱۹۷۱ء عیسوی میں دورۃ حدیث سے فراغت حاصل کی ۱۹۷۲ء میں مولانا وحید الزمان کیرانوی علیہ الرحمہ سے عربی زبان سے مہارت حاصل کرنے کے مقصد سے تکمیل ادب عربی میں داخلہ لیا اور اس میں کمال حاصل کیا اس کے بعد دو سال اردو وعربی خطاطی میں مہارت حاصل کی پھر ۱۹۷۵ء میں شعبۃ افتاء میں داخلہ لے کر فتوی نویسوی کی ٹریننگ لی مولانا وحید الزماں ہوں یا مولانا مفتی نظام الدین اعظمی وہ مفتی محمود الحسن گنگوہی ہر کوئی اپ کی خدا داد صلاحیت کے مداح تھے اور اپ سے علمی کام لیا کرتے تھے،
دارالعلوم دیوبند سے مولانا کیرنوی کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے دعوت الحق کو بند کر کے شوری نے اس کے جگہ ۱۵ روز الدعی جریدہ نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کی ادارت کے لیے مولانا بد الحسن قاسمی اور معاون کے طور پر مولانا محمد اسلام قاسمی کو منتخب کیا چونکہ پہلے دعوۃ الحق مولانا کی ادارت میں شائع ہو رہا تھا اس لیے انہیں توقع تھی کہ الداعی کی ادارت کی ذمہ داری بھی انہی کے سپرد کی جائے گی مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے مولانا کیرانوی کو بڑا صدمہ پہنچا اور انتظامیہ سے انہیں کافی تکلیف پہنچی جس کا اظہار انہوں نے انقلابی تحریک کے دوران بارہاں کیا اور اپنے ہونہار شاگرد سے بھی وہ کافی بدظن و بدگمان رہنے لگے مگرمولانا اسلام قاسمی صاحب نے اپنے استاد کے بارے میں کبھی اپنی زبان پر کوئی ایسی بات نہیں لائی جس سے ان کی کسر شان یا گستاخی ہوتی ہو۔
۱۹۸۰ میں دارالعلوم کا صد سالہ جشن منعقد ہوا اور اس کے بعد ہی سے دو متوازی گروپ جو پہلے سے متحرک تھے کھل کر مقابلے پرآ گئے ایک کی کوششیں تھی دارالعلوم پر قبضہ کرنا اور اپنے دست تصرف میں لینا، انہیں سیاست میں مہارت تھی اور حکومت کی مشنری بھی ان کے پشت پر تھی، دوسری جماعت دارالعلوم کو سیاست دانوں کے دسترس سے دور رکھنا چاہتی تھی،یہ سیاسی داؤ بیچ اورقلا بازیوں سے ناواقف تھے، دارالعلوم کے اندر چند اساتذہ جمعیعت کے ہمنوا اور مولانا اسد مدنی صاحب کے گروپ کے تھے قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود کبھی ان پر قدغن لگانے کا خیال نہیں کیا بلکہ انہیں پنپنے دیا، اسی دوران ایک واقعہ پیش ایا کہ چند طلباء ٹرین کی چھت پر سوار ہو کر مظفر نگر جا رہے تھے اور راستے میں وہ ریلوے کی پٹریوں کے اوپر سے گزرنے والے تار سے ٹکرا کر جان بحق ہو گئے ان کی لاشیں دارالعلوم لائی گئی تدفین عمل میں اگئی اور رات میں تعزیتی نشست کا انعقاد عمل میں ایا جس بڑےاساتزہ موجود تھے،اس میں مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے غالبا مولانا شکیل احمد سیتا پوری نے اپنے تعزیتی کلمات کے دوران یہ بھی کہا کہ طلباء کو چھتوں پر سوار کرنے سے احتیاط کرنا چاہیے، اگر وہ محتاط ہوئے تو یہ حادثہ پیش نہ آتا، مولانا کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ اور زعما، جمیعت نے پہلے سے طے شدہ پلان کے تحت ہنگامہ شروع کر دیا مائک ان سے چھین لیا انقلابی اور طلبہ کی ہمدردی اورابتظامیہ کے کلاف دھواں دھار تقریر ہونے لگی پہلے سے شر پسند طلباء لاٹھیوں اور بلوں سے لیس چاروں طرف کھڑے تھے وہ دوسرے گروپ کے طلباء وہ اساتذہ پر حملہ اور ہو گئے بہت سے زخمی ہوئے،
اساتذہ کو بڑی مشکلوں سے باہر نکالا گیا، پھر تو دار العلوم میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا ہر روز میٹنگیں ہوتی تھیں مولانا واحد الزماں کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ کا کمرہ ہو یا مدنی منزل میٹنگ ہوتے منصوبے بنتے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے طلبہ کی ایک فوج تیار کر لی گئی، دارالعلوم کو غیر معینہ مدد کے لیے بند کر دینا پڑا ، دوسری طرف جمیعت نے طلبہ کو گھر جانے سے روک لیا اور کیمپ لگا دیا اور وہاں تعلیم شروع کر دی گئی بالاخر حکومتی مشینریز کی مدد سے ۱۹۸۲میں دارالعلوم دیوبند پر مخالفین کا قبظہ ہو گیا، چونکہ میں۱۹۸۰ء میں تکمیل ادب میں اور ۱۹۸۱ء میں تخصص میں تھا اور مولانا وحید الزماں صاحب ان دنوں انقلابی میں سرگرمیوں میں منہمک تھے اس لیے اسباق تو ہوتے نہیں تھے البتہ گاہے بگاہے مولانا کی خدمت میں جاتا اور کچھ عربی بنا کر ان سے اصلاح کرا لیا کرتا تھا کچھ مضامین کے ترجمے کر کے انہیں پیش کر دیا کرتا تھا وہ اپنے ہم نشینوں کو کہا کرتے تھے کہ دیکھو یہ ہے مولوی نثار جس کا اٹھنا بیٹھنا میرے مخالفین کے ساتھ ہے اور یہ میرے مخالف ہے مگر پڑھنے میں محنتی ہے اور کام سے مطلب رکھتا ہے انہوں نے میری قاری طیب صاحب کے گروپ میں ہونے کی وجہ سے کبھی سرزنش نہیں کی بلکہ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور فراخد لانہ میری عربی زبان کی اصلاح میں رہنمائی کرتے رہے ااس انتشار ک زامانہ میں میرا زیادہ وقت اداعی کے دفتر میں مولانا اسلام صاحب کے پاس گزرتا اور عربی رسائل و جرائد سے استفادہ کرتا اور کبھی مولانا اسلام صاحب اور کبھی مولانا بدر الحسن صاحب سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا مولانا اسلام صاحب ہمیشہ میرے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی جیسا سلوک کرتے تھے اور اپنا پیار شفقت و الفت و محبت نچھاور کرتے رہے اور ہر قدم پر میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
میں قبضہ کے بعد دارالعلوم دیوبند تقسیم ہو گیا مخالفین اندر داخل ہو کر اسے اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو گئے کیمپ کا دور ختم ہو گیا اور قاری طیب صاحب گروپ نے عارضی طور پر اپنے۱۹۸۲ء حامی طلبہ و اساتذہ وکارکنان کو لے کر جامع مسجد میں تعلیم شروع کر دی، مولانا بدر الحسن قاسمی اور مولانا محمد اسلام قاسمی چونکہ قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حامیوں میں سے تھے اسی لیے وہ اندر نہیں گئے بدر صاحب نے تو کویت کا رخ کیا جہاں وہ تاحال مقیم ہیں اور مولانا اسلام صاحب دارالعلوم وقف سے وابستہ ہو گئے اور وہ دور حدیث و تخصصات کی کتابوں کا درس دیتے رہے،
الداعی سے علاہدگی بعد انہیں خیال پیدا ہوا کہ عربی زبان و ادب سے فطری لگاؤ اور عربی صحافت سے وابستگی کے جذبے کی تکمیل کے لیے کیوں نہ خود اپنا رسالہ عربی میں نکالا جائے، اسی داعیے کی بنیاد پر اور ناچیز کے مشورہ سےالثقافہ نام سے ماہنمہ عربی رسالہ نکالنا شروع کیا جس کے لیے ہر ماہ ناچیز کو دہلی سے دیوبند کا سفر کرنا پڑتا تھا، -اس کے مالیہ کے استحکام کے لیے میں نے بہت سے عرب سفارت خانوں کے چکر کاٹے عرب لیگ لیبیا عراق اور اس جیسے کئی سفارت خانے جس کے خریدار بنے کوئی سالانہ خریدار بنا اور کوئی چند سالوں کے لیے اس رسالے کی ہر ایک نے پزیرائ کی خاص طور پر مسئلے فلسطین سے متعلق مضامین کو بہت پسند کیا تھا اس زمانے میں جمیعت کی جانب بعض مسلم مسائل کو لے کر سول نافرمانی کی کال دی گئی اور ہزاروں لوگوں کو دہلی میں جمع کیا گیا مگر اندراجی نے مولانا مدنی کو بلا کر جب دھمکی دی اور راجیہ سبھا کے ممبر سے محرومی کا اشارہ دیا تو راتوں رات اس سے انہوں نے دستبرداری اختیار کر لی اور بھیڑ کو واپس بھیج دیا اس پر مولانا وحید الدین خان صاحب نے اپنے رسالہ میں ایک مختصر سا مضمون شائع کیا جو بڑا چبھتا ہوا تھا، کہ راتوں رات سارے مسائل حل ہو گئے اور تحریک ختم ہو گئی مولانا ولی رحمانی صاحب نے مجھ سے خواہش کی کہ اس کا ترجمہ اپنے الثقافہ میں شائع کروں میں نے اس کا ترجمہ کر کے جب مولانا اسلام صاحب کو دیا تو وہ مارے خوشی کے جھوم گئے اور کہنے لگے کہ میں خود چاہتا تھا کہ یہ مضمون شائع ہو۔ تم نے جیسا ترجمہ کیا ہے ویسا میں بھی نہیں کر پاتا یا ان کے بڑے پن کی بات تھی اور اپنے چھوٹے عزیز کی حوصلہ افزائی کے طور پر، مگر افسوس کے یہ رسالہ مالی مشکلات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا اور میں خود بھی تلاش معاش میں دو سال بعد بیرون ملک چلا گیا تھا، مولانا محمد اسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ عربی زبان و ادب میں کافی دستترس رکھتے تھے مفردات کا ذخیرہ اور جدید لغات وہ الفاظ کا انبار ان کے پاس تھا مصادر وہ ابواب میں معنی کی تبدیلی اور صلاۃ کی تبدیلی سے معنیٰ میں جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے اس میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا وہ لغت دیکھے بغیر بڑی مہارت سے الفاظ کے معنی طلباء کو املا کراتے اور اسے یاد کرنے کی نہ صرف تاکید کرتے بلکہ سنتے اور محاسبہ بھی کرتے تھے، زبان سکھانے کا ان میں بڑا سلیقہ تھا شاید یہ اسلوب انہوں نے استاد گرامی حضرت مولانا کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اخذ کیا، تھا شاگردوں کے ساتھ بڑی شفقت و محبت کرتے جو طلبہ عربی زبان میں کچھ لکھ کر انہیں دکھاتے یا تقریر کرتے خواہ کافی اصلاح کی اس میں ضرورت ہو وہ بے حد خوش ہوتے اور دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے تھے ان کی اصل پہچان تو عربی زبان و ادب ہی تھی مگر ان کی نگاہ فقہ و فتاوی اور حدیث میں بہت وسیع تھی، اسی وجہ سے وہ دہائیں سے زیادہ عرصہ تک مسلم شریف کا بڑی مہارت وہ جاذبیت کے ساتھ درس دیتے رہے اس کے ساتھ ہی انہیں علوم اسلامی کے دوسرے شعبوں سے بھی خاصی مناسبت تھی جیسا کہ میں نے ابتدا میں ذکر کیا کہ مولانا محمد اسلام قاسمی رحمہ اللہ نہ صرف عربی زبان و ادب کے ماہر فقہ و فتاوی و حدیث و تفسیر جیسے علوم کے غواص تھے بلکہ تصنیف و تالیف کے میدان کے شہسوار بھی تھے انہوں نے نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں تصنیف کی، بہت ساری کتابوں کے ترجمے کیے اور بہت سی کی شروحات قلم بند کیے،
داماد کی وفات کا ان کے دل پر گہرا اثر پڑا ایک بار تو وہ اس کا ذکر کرتے ہوئے ابدیدہ ہو گئے وہ اس کے بعد سے کافی متفکر رہنے لگے جس کے زیر اثر ان کا شوگر اور بی پی بھی کافی اتار چڑھاؤ سے دو چار ہو گیا اور بالآخر فالج کا شکار ہو گئے اور بار بار ان پر اس کا حملہ ہوتا رہا اس کے بعد ان کی تصنیفی اور تحریری جو لانیاں مانند پڑھنے لگی چاہتے ہوئے بھی اعضا جسمانی ان کا ساتھ دینے سے قاصررہے مگر جب تک لکھتے رہے نہایت عمدگی اور سرعت سے لکھتے رہے، ان کے اسلوب میں سنجیدگی وہ توازن ہوتا، زبان وہ بیان میں سلاست و روانی ہوتی اور سادگی اس کا امتیاز ہے، الفاظ کی بھرمار اور مترادفات کی کثرت سے وہ گریز کرتے اور نہایت سادہ و مختصر انداز میں اپنے مافی ضمیر کو قارئین تک پہنچانے کی کوشش کرتے ، لفظی و معنوی پیچیدگیوں اور تعقیدات سے دور رہتے اور حتی االامکان چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں پیش کر دیتے ہیں جس سے پڑھنے والوں کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں اتی، وہ اپنی تحریروں میں الفاظ کا انبار لگانے کی بجائے معلومات کا ذخیرہ پیش کرنے کو پسند کرتے ان کی تحریریں اپنے اندر حلاوت و چاشنی اور روانی لیے ہوتی ہیں، شخصیت نگاری اور کسی کا خاکہ پیش کرنے میں انہیں کافی دس ترس حاصل تھا اور وہ اس پر برجستہ لکھتے اور اس ہنر سے کام لیتے ہوتے اسے جاذب نظر وہ شیرین بنا دیتے تھے،انہوں نے آنے والی نسل کے لیے جو علمی ذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑا اور کتب خانہ و علم میں جو اضافہ کیا اور اپنے نو ک قلم سے جو علمی سرمایہ ہمیں دیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں،

مقالات حکیم الاسلام
ضمیمہ المنجد عربی اردو
خلیجی ممالک اور صدام حسین
ترجمہ مفید الطالبین
زکوۃ وصدقات، اہمیت وہ افادیت
ازمۃ الخلیج العربی ( عربی)
جدید عربی میں خط لکھیے(عربی،اردو )
مہتاج الابرار شرح اردو مسکوۃ الاثار
جمع فضائل شرح اردو شمائل ترمذی
دارالعلوم اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب
دارالعلوم اور خانوادہ قاسمی
دارالعلوم کی ایک صدی کا علمی سفر
درخشاں ستارے
رمضان المبارک فضائل و مسائل

مولانا محمد اسلام قاسمی کی ایک امتیازی شان یہ ہے کہ وہ نرم خو رحم دل اور رکم گو ہونے کے باوجود جرات و حوصلہ مندی کے چٹان تھے، دارالعلوم پر قبضہ کے دوران میں جبکہ ایک طرف سے ہتھیاروں کا مظاہرہ ہو رہا تھا مخالفین کو دھمکیاں دی جارہی تھی اور اساتذٓہ و طلبہ سب کے سب ڈرے اور سہمے ہوئے تھے مگر مولانا کے اندر کسی طرح کی کوئی گھبراہٹ یا خوف و خطر کی کوئی جھلک نظر نہیں اتی تھی، وہ بے خوف و خطر اپنے انداز سے سر اونچا کئے تن کر لمبے لمبے قدموں سے آتے جاتے تھےدوسرے حضرات جو باتیں زبان پر لانے کی ہمت نہیں کرتے مولانا بلا جھجھک سرملا اس کا اظہار کردیتے تھے، ان کی صاف دلی اور حق گوئی کا اندازہ لوگوں کو تھا اس لیے لوگ ان کی باتوں کا برا بھی نہیں مانتے تھے اگرچہ وقتی طور پر کچھ رنجشیں پیدا ہو جاتی اور دل میں چبھن پیدا ہو جاتا تھا،
تدریسی و تصنیفی اور زبان دانی کی مہارت کے ساتھ ان کے اندر فن خطاطی کی بھی بڑی مہارت تھی جو انہوں نے مولانا شکور احمد دیوبندی اور مولانا اشتیاق احمد سے حاصل کی اور اس میں کمال پیدا کیا تھا, الداعی کتابت وہ خود کرتے،اور اس میں وہ ترتیب وہ اخراج کے ماہرانہ فنکاری کو بخوبی پرونے کی کوشش کرتے تھے، بلا شبہ وہ خوش قلم اعجاز رقم خط نسخ خط نستعلیق خط رقاع خط کوفی کے اصول اور اس کے علاوہ مختلف خطوط کے اپنے دور کے نادر، و یکتا خطاط تھے، وہ کتابت و خطا طی کہ اصول و قواعد کے ماہر تھے، رموز تحریر کا بڑا اہتمام کرتے تھے ان کی تحریریں دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں،
مولانا مرنجا منج شخصیت کے مالک تھے، دوستوں کی محفل میں ان کی ظرافت اور بزلہ سجی دیکھنے کو ملتی تھی، داعی کے دفتر میں اکثر و بیشتر مولانا مرغوب الرحمن صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے صاحبزادہ اور مولانا مدنی کے داماد انوار صاحب ا کر بیٹھتے مولانا بدر الحسن مولانا اسلام صاحب اور ہم جیسے چھوٹے بچوں کی موجودگی اور دوسرے کئی ہم عصروں کے ساتھ بسا اوقات مجلس جمع کرتی، فقر ے اکسے جاتے اور اس کا جواب در جواب دیا جاتا،لطائف سنائے جاتے،مگر سطح سے گری ہوئی کوئی بات نہیں ہوتی تھی، طلبہ کے درمیان بارعب رہتے ہنسی مذاق کی باتوں سے اجتناب کرتے تھے، اس کے علاوہ ان میں ایسی بہت سارے اوصاف جمع تھے جس کی وجہ سے وہ دوستوں عزیزوں اور طلبہ میں بہت محبوب تھے،ہم جیسے چھوٹے عزیزوں اور دوسرے طلباء و دوستوں کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی میں وہ پیش پیش فراخ دل اور کشادہ چشم تھے ناچیز کو ان سے قلبی لگاؤ ہو گیا تھا ہر روز اسباق مطالعہ اور تکرار کے بعد جو تھوڑا وقت ملتا ان کی صحبت میں گزارتا اور داعی کی مجلسوں میں بہت جی لگتا تھا کہ وہاں بےکار باتیں نہیں ہوا کرتی تھیں بلکہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا، کم از کم عربی زبان کی ایک تعبیر یا کوئی نیا کلمہ تو ضرور ہی مل جایا کرتا تھا، بلاشبہ مولانا اسلام صاحب صلاحیت و صالحیت کی جامع شخصیت تھے، سلجھا ہوا ذوق رکھتے، وہ ہر ایک کے ساتھ بنا نا جانتے تھے بگاڑنا نہیں جانتے تھے، ان سے جو قریب ہوا ان کا گرویدہ ہو گیا، ان کی فیازی و شفقت نے مجھے خود ان کا محب بنا دیا اور اج تک ان کے نقوش اور ان کی بہت سی باتیں میرے لیے مشعل راہ کی مانند مجھے کام دے رہی ہیں،
ان کا حیدرآباد کا سفر تو بار ہا ہوا مگر میرے غریب خانے پر ان کی تشریف اوری دو تین بار ہی ہوئ اور دار العلوم سبیل السلام کے احوال وہ کوائف وہ مجھ سے معلوم کرتے رہتے اور جمجھے مفید مشورے بھی دےتے رہتے تھے ، گاھے بگاھے ان سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی، اور اگر لمبے وقت تک میں فون نہیں کر پاتا تو وہ خود فون کر کے خیر خیریت دریافت کرتے،
زمانہ طالب علمی ہی سے وہ بطور مزہ وہ شفقت مجھے،، داڑھی،،اور،،میرے پیارے،،کے الفاظ سے مخاطب کرتے تھے، ان کی صحبت میں سالہا سال گزارنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی ایک شخصیت میں کئی روشن جہتیں تھیں، وہ ہر زاویے میں الگ الگ رنگ و اہنگ میں نظر اتے تھے، ان کی گفتگو میں ان کا چال تھا، تدریس کا لب و لہجہ بھی منفرد تھا، قلم سے بکھرے موتیوں کا رنگ بھی نہایت پختہ و جاذب نظر تھا، فہم و فراست وہ استغنا اور خلق خدا سے ربط و تعلق کی الگ شان تھی، اسٹیج پر وہ میر کاروان تھے، خلوت میں قلندر اور تدریسی وہ مجلسی جلوت میں نکتہ سنج شیخ الحدیث وہ ادیب عصر تھے اور دکھاوا سے کوسوں دور تھے، ان کی شعوری بالیدگی اور فہم و فراست کی بلندی نے انہیں معاصرین میں ممتاز بنا دیا تھا،
مولانا محمد اسلام قاسمی دیگر ان خوش قسمت لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہیں عزت وہ وقار اور مقام و مرتبہ وراثت میں ملا کرتا اور بھاری بھرکم نسبتیں ان کی تعمیر و رفقت شان میں رول ادا کرتی ہیں، انہوں نے کسی ابائی نسبت کی بنیاد پر دبستان دیوبند میں وقار و بلندی حاصل نہیں کی بلکہ انہیں یہ مقام ان کے اپنی ذاتی سرمایہ ذاتی محنت و کوشش سے ملا، اپنی انتھک محنت اور جدوجہد سے علم و ادب میں گہرائی حاصل کی پھر مرکز علم دفن میں اپنی جگہ بنائی، مرکزیت حاصل کی اور اپنا لوہا منوایا، ان کی زندگی کا یہ گوشہ طالبان علوم اسلامیہ ہی ہیں بلکہ ہر انسان کے لیے سبق اموز ہے، ان کے اندر حصول علم کی جو تڑپ وہ بے چینی تھی اور کاروان علم میں و فن کے گرد خود کو پامال کر دینے کا جو جذبہ اور عزم م مصمم و عمل پیہم تھا وہ ہر طالب علم کے لیے مشعل راہ ہے ، یہ اور ان جیسے خوبیوں ہی نے انہیں اپنی ذات میں انجمن بنایا ہے۔
ان پر بار بار فالج کے حملے ہوئے کبھی زبان کی بندش کبھی ایک پہلو کا بے جان ہو جانا، کبھی بینائی کا عرض اور اس طرح کے عوارض مسلسل پیش انے لگے، اور رفتہ رفتہ میں اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ وہ وقت موعود اگیا اور جان جام افری کے سپرد کر دی، بلا شبہ مولانا نے شاندار نقش راہ قائم کیے ہیں ، ایک دیہات سے اٹھ کر دیوبند ہوتے ہوئے عالم عرب وہ افریقہ کی سیاحی، اور دہقانی ماحول سے اٹھ کر ازر ہند کی مسند حدیث و زبان و ادب پر فائض ہونے تک کا سفر اسان نہیں تھا مگر انہوں نے اللہ کے فضل، اپنے محنت، عزم و استقامت اور لگن و دھن سے ہر مشکل کو اسانی کے ساتھ سر کیا، اللہ تعالی میرے اس مخلص و محب رفیق کے لیے اخرت کے مراحل کو بھی اسان فرما دے، جنت الفردوس میں ان کا مسکن بنائے، امین یا رب العالمین

ع: دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے