گستاخ رسول کی خود اپنے مذہب میں تحریف اور اس کی بھی توہین؟

مذہب چند ایسے افکار ونظریات، عقائد و اصولوں، اقدار و عبادات اور رسم و رواج کا مجموعہ ہوتا ہےجن کا اس کےسچے ماننے والے اپنے آپ کو خود بخود پابند سمجھتے ہیں اور ان پر اس قدر ایمان و یقین ہوتا ہے کہ ان میں کوتاہی یا بے عملی پر احساس ندامت، شرمندگی، سعادت سے محرومی اور ایک طرح سےجرم کااحساس ہوتا ہے ۔

مذہب اور اس کی تعلیمات افراد اور معاشرہ کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، ان کے ذریعہ انسان کو صحیح اور غلط کی تمیز ہوتی ہے، روحانی سکون، قلبی اطمینان اورزندگی کے مسائل ومشکلات کا سامنا کرنے کیلئے ہمت و حوصلہ ملتا ہے، اجتماعی یکجہتی کا مزاج اور اس کی فضا اس طرح پروان چڑھتی ہے جس سے اس کے پیروکار ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، آپسی پیار و محبت، بھائی چارہ اور مدد کا جذبہ بڑھتا ہے اور سماجی انصاف کے لئے کچھ کرنے کا حوصلہ اور اس کی ترغیب ملتی ہے۔

مختلف مذاہب کے اپنے اپنے عقائد و عبادات، اور اقدار و روایات ہوتی ہیں، جو ان کے پیروکاروں کی ثقافت اور زندگی سے گہرائی اور مضبوطی سے جڑی ہوتی ہیں۔ مذہب میں عقائد، عبادت، تہوار، رسم و رواج اور دیگر مذہبی مراسم کے ساتھ ساتھ ان اعلی اقدار واخلاقیات کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے جن کو صحیح اور غلط کے پرکھنے اور سمجھنےکے اصول اور رہنما خطوط کہا جاسکتا ہے، ان میں وہ معاشرتی امور بھی ہوتے ہیں جو لوگوں کو ایک مشترکہ شناخت دیتے ہیں اور معاشرتی تعلقات کے اسباب اور ان کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔

مذہبی عبادات اور روحانی رسومات ذہنی تناؤ کم کرکے مثبت طرز زندگی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔اس کے ذریعہ انسان کو اپنی زندگی کی حقیقت، مقصد اور معاشرتی ذمہ داریوں کااحساس ہوتا ہے۔جب کہ اعلی انسانی اقدار و اخلاق جیسے آپسی پیار و محبت، ہمدردی و رحم دلی، عدل و انصاف ،ظلم و زیادتی سے نفرت ،جھوٹ و بدگمانی کی قباحت، ایمانداری و وفاداری، حق پسندی اور سچائی جیسے صفات کو فروغ حاصل ہوتا ہے، خود کو بہتر بنانے، روحانی اور اخلاقی ترقی اور افراد کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔

ہندو مذہب قدیم اور اپنے ماننے والوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کے بڑے مذاہب میں شمار ہوتا ہے جس کی اپنی مذہبی اور روحانی تعلیمات اور اخلاقی و سماجی اقدار و امتیازات ہیں جن میں (دھرما) کےذریعہ اخلاقیات کی درستگی اور اصلاح، ذمہ داریوں کے احساس اور صحیح عمل و کردارکی طرف توجہ دی گئی ہے، تو(اہنسا ) و عدم تشدد کو بنا کسی تفریق کسی بھی جاندار کو تکلیف اور نقصان پہنچانے سے بچنے و بچانےکا ذریعہ بنایا گیا ہے۔(ستیہ ) سچ بولنے اور سچائی کے راستے پر چلنے کی آفاقیت و ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو کسی بھی سماج میں امن و امان اور پیار و محبت اور اس کی ترقی و کامیابی کا معیار بنا دیا گیا ہے،(پرمیتا) علم و معرفت، اچھے اعمال و اخلاق، صبر وتحمل،شجاعت ودلیری ،خود اعتمادی، محنت کے جذبہ اور توجہ و مراقبہ جیسی عظیم خوبیوں سے آراستہ ہوکر دوسروں کے ساتھ پیار و محبت، احترام، اور ہمدردی ومہربانی سے پیش آنے کا درس دیا گیا۔اور(سادگی) کی تعلیم دے کرمادیت سے اجتناب اور پرہیز کی ترغیب دی گئی ہےاور (کرتویہ) فرائض کے ذریعہ سماجی ذمہ داریوں اور معاشرتی فرائض کو پورا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

(انیکتا میں ایکتا) تنوع میں اتحاد کو ہندو مذہب کا سب سے بڑا امتیاز کہا جا سکتا ہے جس کا واضح طور پر بھارت جیسے بڑے اور عظیم ملک میں جہاں اس مذہب کے پیروکار سب سے بڑی تعداد میں رہتے ہیں تاریخی حوالوں سے بھی ثبوت ملتا ہے اور خود مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے، اسی وجہ سے یہاں دوسرے تمام مذاہب کے پیروکار بھی ایک اچھی تعداد میں صدیوں سے رہتے چلے آئے ہیں۔ جس سےسماجی ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے، دوسروں کے عقائد کا احترام کرنے اور ان کے ساتھ پرامن طور پر رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

یہ خوبیاں اس کے پیروکاروں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لا تی ہیں اور غالبا اسی وجہ سےبھارت دنیا بھر کی توجہ اور امیدوں و آرزؤں کا مرکز، عروج وترقی اور ہر میدان میں تیزرفتاری سے کامیابی و کامرانی کی طرف رواں دواں ہے۔

لیکن گذشتہ چند سالوں سے ملک کی فضا کچھ اس قدر مسموم و زہر آلود ہو تی جارہی ہے کہ بعض لوگ خود اپنے مذہبی امتیازات، دینی عقائد و عبادات اور افکار و نظریات کے بجائے دوسرے مذاہب اور ان کے پیروکاروں کو ذہنی و جسمانی اور معاشرتی و تہذیبی طور پراذیت پہنچانےکیلئے اپنی مذہبی تعلیمات اور بنیادی حقائق سے چشم پوشی یا ان کی واضح مخالفت کرنے سے بھی باز نہیں آتے اور کہیں نہ کہیں یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک مذہب کا مطلب صرف دوسروں کو تکلیف پہنچانا، ان کی مذہبی تعلیمات کا مذاق اڑانا اور ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی شخصیات کی شان میں زیادتی اورگستاخی کرنا ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے آئے دن ایسے متعدد واقعات پیش آنے لگے ہیں جو ہندو مذہب کی رواداری، بھارت کے امتیازات اور آپسی بھائی چارہ سے بھی کہیں میل نہیں کھاتے۔ انھیں واقعات میں اپنے آپ کو مذہبی گرو منوانے کی کوشش میں سرگرداں داسنہ کاشدت پسند اور ہندو مذہب کو ایک طرح سے بدنام کرنے اور اس کی سب سے بڑی خوبی ’’اہنسا‘‘ سے کھلواڑ کرنے والے’’یتی نرسنگھانند‘‘ کا وہ تازہ بیان بھی شامل ہے جس میں اس نےہندو مذہب کی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے دسہرہ (جسے ہندو مذہب کا ایک اہم تہوار مانا جاتا ہےاور جسے برائی پر سچائی کی فتح کی یادگار اور علامت کے طور پر منایا جاتا ہے کی مناسبت سے) وہ بات کی جس میں نہ صرف نبی اسلام ؐ کی شان میں آخری درجہ کی گستاخی و بیہودگی کی گئی ، مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور ملکی امن و سکون اور ہم آہنگی کی فضا کو پارہ پارہ کرکے نفرت کی فضا کومزید بڑھانے کی مذموم سازش کےساتھ ساتھ خود ہندو مذہب میں تحریف، اس کی تعلیمات کا انکار اور ایک طرح سےاس کی توہین کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا نر سنگھانندہندو مذہبی روایات کے اعتبار سے دسہرا کے دن راون کو جلاکر برائی پر سچائی کی جیت منانےکی روایت ختم کرنا چاہتا ہے؟ کیا اس ملعون کو ہندو مذہب کی سب سے عظیم شخصیت رام چندر جی جو کہ ہندو مذہبی دیوتا وشنو جی کے ساتویں اوتار سمجھے جاتے ہیں کی بیوی جسے ہندو مذہب میں ـــ’ماں سیتا‘ کہا اور مانا جاتا ہے کو راون کے ذریعہ اغوا کر لینےکی حرکت باعث لعنت نہیں لگتی کہ اس دن راون کو جلانے کی رسم سے اس کو اس قدر تکلیف ہورہی ہے کہ اس نظام کو بدلنےکی سازش پر آمادہ ہے۔کیا وہ اس تاریخی واقعہ اور دن کو یاد رکھنا نہیں چاہتا جس دن رامچندر جی، ان کے بھائی لکشمن، ان کے پیروکار ہنومان اور ایک فوج نے سیتاجی کو بچانےاور ان کی بحفاظت بازیابی کیلئے ایک بڑی جنگ لڑی اور نہ صرف سیتا جی کوبازیاب کرایا بلکہ راون جیسے راکشش کو اس کے انجام تک پہونچا دیا۔

یقینا اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے اس دور کا راون ہی کہا جاسکتا ہے اور رام ،لچھمن اور ہنومان جی سے سچی عقیدت رکھنے والوں کو بھی اس کی خبر ضرور لینا چاہئے اور اسے گرفتار کرکے ایسی سخت سزا دینی چاہئے کہ لوگوں کو ایک بار پھر برائی پر اچھائی کی فتح کا احساس ہونے لگے اور سچے پیروکار اس پر جشن اور خوشیاں منائیں۔

تحریر: ذکی نور عظیم ندوی، لکھنؤ
zakinoorazeem@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے