خبردار ! کوئی آپکو مودی مخالفت کا جھانسہ دے کر پھنسا بھی سکتا ہے

آج میرے پاس ایک مشکوک فون آیا، پہلے آپ یہ جانیے کہ فون کیسے آیا؟
بہت دنوں سے ایک سوشل میڈیا صارف مجھے فیسبوک پر انباکس میسج کررہا تھا کہ آپ سے بات کرنا ہے ۔ لیکن میری عادت یہ ہےکہ میں فیسبوک انباکس کئی کئی مہینے دیکھتا ہی نہیں، جو بھی لکھنا ہوتا ہے کھلے عام لکھتا ہوں اور اس پر جو بھی ردعمل یا تبصرے ہوتے ہیں انہیں کمینٹس سیکشن میں ہی دیکھتا ہوں ۔ فیسبوک صارفین کے ساتھ میں ربط نہیں کرتا کیونکہ اس پلیٹ فارم پر مجھے 99 فیصد بھروسہ نہیں ہے اور یہ میرا کئی کئی سالوں کا معمول ہےکہ خواہ کتنی ہی عقیدت میں ڈوب کر میری تعریف کرتے ہوئے میسج کرے میں 99 فیصد دیکھتا ہی نہیں ہوں یہاں کوئی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔
لہذا میں نے اس شخص کا بھی میسج نہیں دیکھا، لیکن پھر وہ میری پبلک پوسٹ پر کمینٹ کرتا ہے کہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے پلیز میسج دیکھیے۔
پھر انباکس میں کچھ معتبر اور مشہور ناموں کا حوالہ دے کر مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ فلاں بڑی شخصیت سے آپکا نام سنا تھا، اتنی زیادہ کوششیں دیکھ کر میں نے اسے پنا نمبر دےدیا ۔
اس کے بعد بھی بات نہیں کی، کیونکہ آجکل میں سفر پر ہوں اور مستقل ایک منٹ بھی فرصت نہیں رات میں سیدھے سونے کے لیے وقت نکلتا ہے،
بہرحال وہ شخص میرے نمبر پر میسیج کرنے لگا، اچھا نمبر تو میں نے دےدیا پھر مصروف ہوگیا اپنے شیڈول میں لیکن جب میں نے اس کا یہ میسج دیکھا کہ ” فرصت میں بات کیجیے گا بہت اہم باتیں کرنی ہیں ” تو مجھے یاد آیا : میں نے فون کرلیا، میں نے راست نارمل فون ملایا تو اس نے فون نہیں اُٹھایا ۔
پھر اس نے واٹس ایپ کال کی۔
اور بات شروع کی ۔ کہ: دیکھیے حالات ایسے ویسے یہ وہ، اس پر کچھ دیر بولتا رہا۔
پھر اس پر آیا کہ ہم نے ایک ٹیم بنائی ہے اور ہم کچھ کرنے کی بہت کوششیں کررہے ہیں ۔ ابھی دس سال مودی رہ گیا اور ایسے ہی رہا تو اگلے دس سالوں میں بھی یہی رہےگا۔
پھر راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کے حوالے سے گفتگو کی ۔
پھر ملک کی سپریم کورٹ کے ایک مشہور وکیل کا نام لیا کہ ہم ان کےساتھ کام کررہے ہیں ۔ اور ہریانہ الیکشن میں ہم نے گراؤنڈ پر ایسا اور ویسا کام کیا ۔ اور الیکشن پر ان کے کام کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔
پھر کہنے لگا لیکن ایک وی ایم کا یوز کرکے یہ لوگ آخرکار واپس سرکار پر قبضہ کرلیے
اب ہمیں لوگوں کو سڑکوں پر نکالنا پڑےگا لوگوں کو سڑکوں پر لانے کے لیے فنڈ لگےگا کم از کم 25 سے 30 لاکھ لوگوں کو سڑکوں پر لانا پڑے گا تب کچھ ہوگا۔ اور اس کے لیے ہمیں فنڈ لگےگا ۔ انڈیا میں جس سے بھی بات کرو فنڈ نہیں دیتا ہے کوئی اسلیے ہم کوشش کررہے ہیں کہ دوبئی کے ذریعے پاکستان سے کچھ فنڈ کا انتظام ہو، اس کے بعد پاکستان کے ایک بڑے صحافی کا نام لیا کہ میں ان سے ٹچ میں ہوں۔
میں اتنی سب باتیں سنتا رہا کیونکہ جب میں کسی کو نمبر دیتا ہوں تو یہ موقع دیتا ہوں کہ وہ اپنی بات کہہ سکے اور میں مکمل بات سن لوں اس لیے اس دوران میں نے کچھ نہیں کہا۔
لیکن جب وہ اس لائن پر گیا اور پاکستان سے فنڈ کی باتیں کرنے لگا تو میں نے اسے روکا کہ بیوقوف سمجھا ہے کیا؟
میں نے کہا تمہاری یہ سب باتیں بالکل غلط ہیں ۔ میں ان باتوں کی تائید نہیں کرتا ہوں تم فون پر پاکستان سے فنڈ لانے کی بات کررہے ہو مجھ سے یعنی پھنسانے کا پلان ہے کیا؟ اگر تم واقعی کوئی Genuine آدمی ہو اور کچھ کرنا ہی چاہتے ہو تو تمہیں انڈیا میں ریسورز کم کیوں پڑ رہے ہیں جو تم پاکستان سے فنڈ حاصل کرنے کی بات کررہے ہو ؟
میں ظالموں کے خلاف جوش اور بےخوفی کےساتھ الحمدللہ اچھے خاصے تجربات اور خاندانی طور پر ذہانت بھی رکھتا ہوں ۔ تم نے شاید ایک ہی رخ دیکھا ہے۔
میں نے کہا ۔ ایک بات صاف سمجھ لو مجھے تو کسی فنڈ ونڈ کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ، اور میں مودی کے خلاف بھی کوئی بھی کام انڈین کانسٹی ٹیوشن کے فریم ورک کے باہر ہر گز نہیں کرتا،
تو وہ کہنے لگا ارے مجھے لگا آپ اسلامی مزاج والے ہیں ۔
میں نے کہا ارے میں اسلامی مزاج والا اسلامی اسکالر بھی ہوں اور یہ اسلام کی ہی تعلیم ہے کہ جس ملک میں رہتے ہو اس کے قوانین حدود اور پروٹوکول کا خیال رکھو۔
میں Human rights اور اپنی کمیونٹی کے حقوق کے لیے بالکل کام کرتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ ملک میں فرد کی آزادی اور حقوق انسانی سربلند ہوں مجھے مودی کی سرکار سے پرابلم ہے اپنے ملک سے نہیں، میں ظلم و ستم کے خلاف ہوں اور انڈیا میں رہتے ہوئے ایک بیدار مسلمان بھارتی شہری کے طور پر جائز اور قانونی انداز میں کام کرتا ہوں اور اسی کو درست سمجھتا ہوں ۔ ہم باہر سے ایسی مدد لینے کے قائل نہیں نہ ہی اس کی ضرورت ہے اور پاکستان سے تو ہم سوچتے بھی نہیں ہم انڈیا میں رہتے ہوئے انڈین ریسورسز کے ذریعے اپنا کام کرسکتے ہیں، میں نے کہا کہ بھیا بھارت میں democratic struggle جمہوریت اور حقوق انسانیت کی لڑائی چل رہی ہے غلط لوگ سرکار میں آگئے ہیں جن سے ہمارا اتفاق نہیں کیونکہ وہ ظالم ہیں لیکن ان کے ظلم سے نکلنے کے لیے بھی ہم democratic اور constitutional جدوجھد کررہے ہیں ملک کے قانون کے خلاف جاکر ایک قدم بھی نہیں اٹھائیں گے، اور بالکل مضبوطی سے لڑتے رہیں گے ۔ فون رکھو تم !
اس طرح میں نے تفصیلی جواب دےکر فون منقطع کردیا۔

اس میں دو امکانات ہیں یا تو یہ شخص ایجنسیوں کا آدمی ہے اور ملکی صورتحال میں مودی اور ہندوتوادیوں کے خلاف متحرک رہنے والوں کو اس طرح ٹریپ کرکے گرفتار کروانا چاہتا ہو۔
نمبر 2 ۔ یہ کوئی بہت ہی شاطر و عیار فراڈ ہے جو اس طرح پیسے جمع کررہا ہو۔
لیکن جس طرح اس نے پاکستان کا حوالہ دیا لگتا نہیں کہ فراڈ ہے بلکہ لگتا ہے کہ کوئی پھنسانے والا ہی ہرکارہ تھا۔
مجھے الحمدللہ کوئی خوف اور تشویش بھی نہیں میری ہر چیز ظاہر اور کھلم کھلا ہے، دشمن اپنے ہتھکنڈوں میں سوفیصد ناکام ہوگا، کیونکہ میں قانونی فریم ورک سے کبھی قدم باہر نہیں نکالتا اور فنڈنگ ونڈنگ کا تو چکر اپنے یہاں دور دور تک سوچا بھی نہیں جاتا، ہم بہادری اور بےوقوفی کا فرق بخوبی سمجھتے ہیں، یہ سب بڑی ہی گھٹیا اور نچلی حرکتیں ہیں اگر یہ واقعی کوئی ایجنسی کا ہرکارہ ہے تو اندازہ لگائیے کہ اس گورنمنٹ کی ترجیحات کتنی نچلی اور سطحی ہیں اور یہ ملک کے وسائل کو کیسی تخریب کاریوں میں ضائع کررہے ہیں یہ اس ملک کو تعمیر کے نام پر کیا دیں گے ؟ سرکار مخالف آوازوں اور اپنے مخالفین کو پھانسنے کا یہ طریقہ نہایت شرمناک ہے، جمہوریت، فرد کی آزادی، انٹلکچول آزادی ، اور حقوق انسانی کو تار تار کرنے والی حرکت ہے۔ کسی بھی مہذب سوسائٹی اور متمدن ملت میں ایسی حرکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی ۔ لیکن تہذیب و تمدن اور ظرف والے ہی ان اقدار کو برت سکتے ہیں ۔

آپ لوگ بھی خبردار رہیں ، خاص طور پر اگر آپ ملکی حالات یا مسلمانوں کے ایشوز پر لکھتے ہیں یا کوئی کام کرتے ہیں تو فیسبوک سوشل میڈیا انباکس پر ہرگز اعتماد مت کیجیے۔ محتاط رہیے، وہاں سے آنے والے 99 فیصد پیغامات کو اگنور کیجیے، صرف اپنے جاننے والے یا سماجی،ملی اور علمی زاویوں سے معروف شخصیات سے ہی گفتگو کریں،
یہ تجربہ میری اس چھٹی حس کو مزید تقویت پہنچا گیا کہ سوشل میڈیا سے ہونے والے رابطوں سے بچنے میں ہی عافیت ہے، امید ہے کہ جن لوگوں کو مجھ سے میسج کا جواب نہیں ملنے کا مسلسل شکوہ رہتا ہے انہیں اس واقعے سے اندازہ ہو جائے گا کہ میں کیوں سوشل میڈیائی پیغامات کے جواب نہیں دے پاتا اور مجھے کیوں دور رہنا چاہیے ۔

ازقلم: سمیع اللہ خان
samiullahkhanofficial97@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے