"اوقاف اور اس کے متعلقات” ایک اہم تصنیف

زیر نظرکتاب گرچہ ایک کتابچہ ہے ،مگرخوبی کی بات یہ ہے کہ تاک جھانک کے بغیر،آپ ایک نشست میں اسے پڑھ لیجئے تو اسلام میں اوقاف کی حیثیت ،بہار میں اوقاف کی حالت،اوقاف پر حکومت کی نیت بد،وقف ایکٹ کی ترمیمات وخطرات سمیت تحفظ اوقاف کے سلسلے میں قیام کےشروع دن سے امارت شرعیہ کی مثالی جدوجہد کا پورا آئنہ آپ کے سامنے آجائےگا ۔
راقم الحروف یہ دعویٰ تو نہیں کرسکتاکہ اس رسالے میں نائب ناظم امارت شرعیہ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے "سب کچھ” سمو دیا ہے ،مگر یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ اس رسالے میں اوقاف کے موضوع پر "بہت کچھ "ہے ،بلکہ "دریا بکوزہ ” کامصداق ۔تحریر انتہائی شستہ،زبان شگفتہ،انداز وہی اپنا والا۔تقریظ ومقدمہ سےبے نیاز ،زود فہم اسلوب میں عام وخاص کے لئے ایک اہم تصنیف اور وقت کی ضرورت کہہ لیجئے۔دو سے ڈھائی پیراگراف میں محض ابتدائیہ لکھ کر مصنف نے اصل موضوع کو شروع کیا ہے،اپنے ابتدائیہ میں انہوں نے بجا لکھا ہے کہ

"زیر نظر کتاب وقف سے متعلق میرے چند مضامین کا مختصر سا مجموعہ کتابچہ کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش ہے ، ہر لکھنے والے کی اپنی معلومات اور قانون کو سمجھنے کی اپنی فہم ہوتی ہے۔ میری جو معلومات تھیں اور وقف ایکٹ کے مجوزہ ترمیمی بل کو جہاں تک میں نے سمجھا ، اپنی فہم کے مطابق سمجھانے اور پیش کرنے کی کوشش کی ہے،صارفیت اور مشغولیت کے اس دور میں ضخیم کتابوں کے پڑھنے کی طرف التفات اور توجہ کم ہوتی ہے، پمفلٹ اور رسالوں کی مختصر چیزوں کو پڑھنا آسان ہوتا ہے، اس لیے ہم نے اس کتابچہ میں صرف اہم نکات اور ضروری باتوں کو پیش کیا ہے،تاکہ کم وقت میں لوگ وقف اور اس کے متعلقات سے واقف ہو جائیں اور صورت حال کی سنگینی کا ادراک کر کے اس کے تحفظ کے لیے فکرمند ہوں "

پورا کتابچہ پانچ عناوین پر مشتمل ہے: اسلام میں اوقاف ۔بہار کے اوقاف۔اوقاف پر حکومت کی بری نظر۔وقف ایکٹ کی مجوزہ ترمیمات ،اندیشے اور مضمرات۔تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ یہ وہ پانچ عنوان ہیں جس کے تحت اختصار کو ملحوظ رکھ کر اوقاف اور اس کے متعلقات پرمختلف جہات سے روشنی ڈالنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ایک جگہ بہار کے اوقاف کی حالت زار پر لکھتے ہوئے انہوں نے جہاں سرکاری کارندوں کے بدباطن کو آشکارا کیا ہے وہیں وقف بورڈ کے اعلی ذمہ داروں کو بھی ان کی غفلت پسندی اور سست روی پر کھری کھوٹی سنانے کی جرئت دیکھائی ہے :

"قانونی اعتبار سے اوقاف کی جائیداد کے تحفظ کے لیے بہار اسٹیٹ میں سنی اور شیعہ اوقاف کے لیے الگ الگ بورڈ قائم ہے ، ان کے ذمہ اوقاف کو رجسٹرڈ کرنے اور اوقاف کی جائیدا کے تحفظ کے ساتھ اسے واقف کی منشاء کے مطابق مفید اور بار آور بنانے کا کام ہے لیکن اس معاملہ میں دونوں بورڈ سست روی کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں رجسٹر ڈ اوقاف کی تعداد دوسری ریاستوں سے کم ہے، اس سلسلے میں عوامی بیداری بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
جہاں سروے سرکاری کا رندوں کے ذریعہ کرایا گیا ہے، ان میں سے کئی جگہوں پر متعصب سروے کرنے والوں نے قبرستان کو کبیر استھان اور گورستان کو گئو استھان لکھ دیا ہے ، اس وجہ سے ان جگہوں پر کبھی بھی تنازع کھڑا ہو سکتا ہے”

کتاب میں اوقاف سےمتعلق سرکاری افسران کی بد خواہی اور بندر بانٹ کی پلاننگ سے نقاب کشائی کرتے ہو ہندستانی مسلمانوں سے بھی ہوشیار وبیدار رہنے کی اپیل کی گئی ہے :
ہندوستان میں کثرت سے سروے کرنے والوں نے قبرستان اور غیر مزروعہ عام کو "بہار سر کار” لکھ دیا ہے، حالاں کہ قبرستان کی زمینیں مسلمان مردوں کو دفن کرنے کے لیے وقف کی گئی ہیں ، اس لیے سروے میں اسے” بہار سر کار” لکھ دینا اوقاف کی زمین پر سرکاری قبضہ کے مترادف ہے. بہار میں جدید سروے کا کام شروع ہو گیا ہے، ایسے میں اپنی زمین و جائیداد کے ساتھ گاؤں میں اوقاف کی زمینوں کا سروے بھی وقف کی حیثیت سے کرنا چاہیے، اور اس کے لیے گاؤں اور محلوں کے لوگوں کو سر گرم ہونا ہو گا تا کہ اوقاف کی زمینوں پر سرکاری قبضہ کو روکا جاسکے۔
صاحب کتاب نے وزارت برائے اقلیتی امور کےاس جواب سے بھی ملت اسلامیہ ہندیہ کو آگاہ کرانا چاہاہے جس میں اقلیتی امور کے وزیر نے اوقاف کا بیورا پیش کیا ہے اور متولیان سمیت بورڈ کے ذمہ داران کو رتوندسے نکل کر غیر قانونی قبضوں کو چھوڑنے اور غیروں سے اوقاف کوخالی کرانے کی نہ صرف بات کہی ہے، بلکہ اوقاف کی زمینوں کو چور دروازے سے خرید وفروخت پر روک لگانے اور خاطیوں کوقرار واقعی سزادئیے جانے کاواضح مطالبہ بھی کیا ہے:

"یہاں یہ بات بھی ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وزارت برائے اقلیتی امور نے دسمبر 2022 ء میں ایک سوال کے جواب میں پارلیامنٹ کو بتایا تھا کہ وقف بورڈ کے پاس ساڑھے نو لاکھ ایکڑ اراضی اور 7.8 لاکھ غیر منقولہ جائیدادیں ہے، اس طرح اس کے پاس ریلوے اور فوج کے بعد سب سے زیادہ غیر منقولہ جائیداد ہے، یہ اعداد و شمار وقف بورڈ میں درج رکارڈ کے مطابق ہے، جو زبانی طور پر وقف ہیں، یا جو عملی طور پر بغیر کسی اندراج کے مسجد، قبرستان وغیرہ کے استعمال میں ہیں، ان کا شمار اس فہرست میں نہیں ہے، ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ اوقاف کی زمینوں کا غلط مصرف بھی لیا جا رہا ہے، بہت ساری زمینوں پر اپنوں اور غیروں نے ہی قبضہ کر رکھا ہے ، سروے کا کام اب تک مکمل نہیں کیا جا سکا ہے، اوقاف کے متولی حضرات اور مختلف ریاستوں میں قائم وقف بورڈ کے ذمہ دار بھی اپنی ذمہ داریوں کے معاملہ میں سست واقع ہوئے ہیں ، وقف املاک کے تجاوزات اور غیر قانونی قبضے کو ہٹانے میں وقف بورڈ نا کام رہا ہے، کیوں کہ وہ خالی کرانے کے لیے ان دفعات کا سہارا نہیں لے پا رہا ہے، جس کے سہارے سرکاری زمینوں کو خالی کرایا جاتا ہے، وقف املاک کی خرید و فروخت
کا کام بھی غیر قانونی طور پر ہو رہا ہے”
بہار کے اندر سنی وقف بورڈ نے 2014/15 میں اپنی سالانہ رپورٹ پیش کی تھی،معلومات کو مستحکم کرنےکی راہ سےایک نظر اس رپورٹ کو بھی پڑھ جائیے :
"بہار اسٹیٹ سنی وقف کی سالانہ رپورٹ 2014/15کے مطابق بہار میں رجسٹرڈ وقف اسٹیٹ فی سبیل اللہ 2274 وقف علی الاولاد 182 ہیں ، مقاصد اور منشاء واقف کے اعتبار سے دیکھیں تو وقف اسٹیٹ کی کل مساجد 833 عیدگاہ 57 مزار و مقبره 209 ، قبرستان 6141 مدارس و مكاتب 74 ، اسکول اور مسافر خانے، 6,6 ، یتیم خانہ 4، اسپتال 2 ، درگاہ 137 ، کربلا 55 ، خانقاه 13 ، امام باڑہ 224 اور مکانات 194 ہیں ، ان اوقاف میں آمدنی کے ذرائع والے وقف اسٹیٹ 636 ہیں. یہ وہ اعداد و شمار ہیں جس کا اندراج وقف بورڈ میں ہے، اس کے علاوہ ہزاروں ,بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے اوقاف ہیں، جن کا سروے اب تک نہیں ہو سکا اور ان کا اندراج بورڈمیں بھی نہیں ہے”

یہ اقتباسات اس لئے پیش کئے گئے تاکہ قارئین مسئلے کی حساسیت کوبھی سمجھیں اور کتابچے میں شامل مشمولات کی ضرورت کو بھی برتیں ۔یہ کتابچہ افادہ عام کی غرض سے ہر خاص و عام تک پہنچانے کے ارادےسے امارت شرعیہ کے زیر اہتمام 15/9/24کوباپو سبھا گار میں منعقد ہونے والے تاریخی تحفظ اوقاف کانفرنس کے موقع پر استقبالیہ کاؤنٹر پر سب سے پہلے دی جارہی تھی۔مہمانوں نے اسے دل سےپسند کیا اور اوقاف کے تحفظ کے تعلق سےامارت شرعیہ کی جد وجہد اور پیغام کو راست ذرائع سے دور تک پہنچانے کا کامیاب وسیلہ بھی ثابت ہوا۔اس طرح سے بروقت ان کی یہ علمی کاوش،چارصوبوں سے تشریف لانے والے مختلف شعبوں سے وابستہ معززین کی علمی ضیافتوں کاسبب بنی ۔(فجزاہ اللہ خیرا) یہ ایک قیمتی رسالہ ہےجوبلاشبہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے،نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما ویشالی سے شائع ہوئی ہے ۔ظاہری وباطنی حسن ،شاندار طباعت وکاغذ اور خوبصورت پیش کش پر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ کے ذوق وابروکو سلام !

تعارف وتبصرہ: عین الحق امینی قاسمی
اردو منزل خاتوپور بیگوسرائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے