غزل: اداسی بھی متاعِ کارواں معلوم ہوتی ہے

یہاں جو اس قدر آہ و فغاں معلوم ہوتی ہے
کسی کے آنسوؤں کی داستاں معلوم ہوتی ہے

عجب ہی بے قراری ہے عجب ہے بے بسی دیکھو
کسی قاتل کے پنجے میں یہ جاں معلوم ہوتی ہے

مرا تم حوصلہ دیکھو کہ ہر اک گام پر منزل
مجھے گردِ سفر اور بے نشاں معلوم ہوتی ہے

اگر ہے یہ مکانِ دل فقط اک سرد سا خانہ
تو شعلوں کی تپش کیوں کر یہاں معلوم ہوتی ہے

نہ جانے کیوں میں رستوں کے بھنور میں قید ہوں اب تک
مری منزل مجھے کیوں بے نشاں معلوم ہوتی

متاعِ زیست ہے یہ آبلہ پائی مجھے فرحتؔ
اداسی بھی متاعِ کارواں معلوم ہوتی ہے

ازقلم: ڈاکٹر فرزانہ فرحت، لندن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے