حاجی نثار احمد،مولانا نوشاد احمد مفتاحی ودیگرلواحقین سے اظہارِ تعزیت
میرے مخلص وکرم فرما جناب حاجی نثار احمد صاحب چیرمین الہدی ایجوکیشنل اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ پرسونی مدہوبنی بہار ونگرانِ اعلی جامعہ ام الہدی پرسونی مدہوبنی بہار کی اہلیہ محترمہ اوربرادرِ گرامی قدر جناب مولانا نوشاد احمد صاحب نثاری مفتاحی بانی وناظم جامعہ ہٰذا کی والدہ ماجدہ کی وفاتِ حسرت آیات کا جو عظیم روح فرسا حادثہ پیش آیا،اس سےجہاں ہم اساتذۂ جامعہ سخت صدمے میں ہیں،وہیں عزیز طالبات بھی شدید غم واندوہ میں ہیں،بلکہ اس حادثے کی خبرِ دہشت اثر سے پورے جامعہ کی فضا سوگوار ہوگئی ہے،
اس جان گسل سانحے پر میں اپنی طرف سے اور اپنےتمام اساتذہ کی طرف سے آپ تمام شکستہ دل اور آزردہ خاطر اہلِ خانہ کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں۔
«إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَه مَا أَعْطٰى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَه بِأَجَلٍ مُّسَمًّى»
اور دعاء گو ہوں کہ
اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنی وسیع تر رحمت کے سائے میں جگہ دے، اپنی رضائے کامل سے مالامال کرے، اورآپ تمام اہلِ خانہ کو صبرِجمیل سے نوازے۔آمین۔
حقیقت یہ ہے کہ مرحومہ ایک خوش گفتارو خوش کردار نیک مزاج خاتون تھیں،خواتین میں دینی شعور پیدا کرنے کے تعلق سے کوشاں اور فکرمند رہتی تھیں،جماعتِ تبلیغ اور جامعہ ام الہدی پرسونی کی تمام دینی وملی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھیں،اس حوالے سے ان کی تمام تر کاوشیں یقینًا قابلِ رشک اور لائق آفریں ہیں،جوان کے لیے ذخیرۂ آخرت ہیں۔ اللہ جل شانہ ان کے تمام حسنات کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین
یہ صحیح ہے کہ یہ حادثہ ایک زبردست حادثہ ہے،مصیبت کی شدت اور تکلیف کی دہشت ناکی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،لیکن خدائی فیصلے ناقابلِ تنسیخ ہوتے ہیں۔{يونس:64}
خدائے لم یزل ولایزال کے علاوہ یہ دنیا اوردنیا کی ہرشے فانی ہے،{القصص:88} یہاں حیاتِ سرمدی کسی کے نصیب میں نہیں ہے،موت کا کڑوا گھونٹ ہرکسی کو پینا ہی پڑتا ہے۔{النساء: 185}مرحومہ بھی اسی قانونِ قدرت کے تحت اپنے ہنستے کھیلتے خانوادے کو روتا بلکتا چھوڑ کر راہیِ مُلک عَدَم ہوئی ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ یہ حادثہ آپ اہلِ خانہ کے لیے ایک ناگہانی حادثہ ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ناگہانی حادثہ ہم انسانوں کے لحاظ سے ہے ،علمِ الہی کے لحاظ سے ناگہانی نہیں ہے،کیوں کہ علمِ الہی میں ہر کسی کی
موت کا وقت مقررہے،عمر کاکارواں سدایونہی رواں دواں نہیں رہتا،بلکہ اسے ایک منزل پر پراؤ ڈالنا پڑتا ہے،جب موت کا مقررہ وقت آجاتا ہے،تو اس میں کسی تاخیر کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
{يونس:49}
اسی اصولِ قدرت کے تحت مرحومہ اپنےوقتِ موعود پر اس دارِفناء سے دارِبقاء کی طرف کوچ کی ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ اپنے کسی عزیز وقریب کی وفات سے شدید صدمہ پہنچتاہے،آنکھیں اشک ریز ہوجاتی ہیں،ہوش وحواس اُڑجاتے ہیں ،خرمنِ عقل پر بجلی گرپڑتی ہے ،تکلیف کی شدت سے دل چھلنی چھلنی اور سینہ چاک چاک ہوجاتا ہے ،باطن میں ایک شعلہ زن آگ بھڑکتی ہے،اورجگر اس میں قطرہ قطرہ پگھلتا جاتاہے، شریعت میں ان فطری امور کا خیال رکھا گیاہے ،اورکسی کی موت پر غمگین ہونے،آنسو بہانے ،اورابتدائى صدمے میں ہلکی آواز سے رونے کی بھی اجازت دی گئی ہے،{بخارى:1303}اس سے رنج وغم ہلکا ہوتا ہے،بے قرار دل کو قرار آتاہے
،لیکن نوحہ وماتم کرنے اور زبان پر حرفِ شکایت لانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے{بخارى:1294}بلکہ صبر کی تلقین کی گئی ہے،اس لیے خداوندی فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کردیجیے ،ہمت بلند کیجیے ،صبر سے کام لیجیے ،صبر وہمت اور رضا بالقضاء کے علاوہ آپ کے زخموں کا کوئی مرہم نہیں ہے ،اس حادثۂ جان کاہ کو فراموش کرنے کی کوشش کیجیے،کیوں کہ تکلیف دہ سانحے کو یاد کرنے سے زخم ہرے ہوتے ہیں،ہمت ٹوٹنے لگتی ہے ،حوصلے جواب دینے لگتے ہیں۔شاید اس طرح کرنے سے آپ کے اضطراب میں کمی ہوجائے اور غم کی سوزش صبر کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہو۔دردو الم کی اس گھڑی میں ہم ،ہماری دعائیں اور ہماری نیک خواہشات آپ اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحومہ کی بال بال مغفرت فرمائے، اپنے سایۂ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ،ان کی قبر کو باغِ جنت بنادے،بہشتِ بریں مقدر فرمائے اور مجروح دل لواحقین کو صبرِ جمیل اور اجرِجزیل سے نوازے ۔آمین
ابرِرحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے
حشرتک شانِ کریمی ناز برداری کرے
ازقلم: اسعد اللّٰہ قاسمی مظاہری
شیخ الحدیث وصدر المدرسین جامعہ ام الہدی پرسونی مدہوبنی بہار