تاریخ وفات پر خصوصی تحریر
ایم شمیم جرنلسٹ محمد تسلیم بن نبی حسن بن شیخ امیر علی بن مخدوم بخش بن پیر بخش بن شاہ کریم الدین بن شاہ زکر یا منصور بن شاہ قتال کے لڑکا تھے۔ پیر بخش صاحب کا آبائی وطن شیورہ جندا ہا تھا ، لیکن جب ان کی شادی راج بی بی دختر شیخ بدلوخواجہ چاند چھپرہ ضلع ویشالی سے ہوئی تو انھوں نے خواجہ چاند چھپرہ ہی کو اپنا مسکن بنالیا یہیں 1945ء میں شمیم صاحب کی ولادت ہوئی، والدین نے مبارک ساعت میں محمد شمیم کے ساتھ عرفی نام گلاب تجویز کیا جو لفظاً تو مقبول نہیں ہوا ؛ معنا گلاب کی خصوصیات ان کی زندگی کا جزو لازم بن گئیں۔ شمیم صاحب کی ابتدائی تعلیم خاندانی رسم ورواج کے مطابق گھر اور گاؤں کے مکتب میں ہوئی، ہوش سنبھالنے کے بعد انہوں نے ہندوستان کو غریب اور پس ماندہ ملک کی شکل میں دیکھا جو ابھی ابھی فرنگیوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا، اور جو اپنی بقا اور ترقی کے لئے پنڈت جواہر لال نہرو کی قیادت میں سرتوڑ کوشش کر رہا تھا شمیم صاحب کی زندگی پر اس مخصوص حالت کا بہت اثر پڑا، چنانچہ جب وہ ابتدائی تعلیم کے بعد مقامی کے۔ ان ہائی اسکول باگھی ضلع مظفر پور منتقل ہوئے تو سماجی کاموں میں ہاتھ بٹانے لگے اور پسماندہ طبقات کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ بعد میں جب وہ اعلی تعلیم کے لئے بہار یو نیورسیٹی میں داخل ہوئے تو انہیں کام کا ایک وسیع میدان ہاتھ آگیا اور وہ سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تعلیمی جلسوں کے روح رواں بن کر عوام کے سامنے آئے۔ عوام کی آواز سر کار تک پہونچانے کے لئے مظفر پور سے ہفتہ وار اخبار آئین نکالا جس نے ابتدائی سالوں میں ہی چھوٹے اخباروں میں اپنی ایک شناخت بنائی جو آج کی طرح اس وقت بھی بڑا مشکل کام تھا، حکومت نے ان کی صحافتی خدمات و اہمیت کے پیش نظر اکریڈیشن کارڈ دیا اور عوام نے جرنلسٹ ان کے نام کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس طرح وہ محمد شمیم سے ایم شمیم جرنلسٹ ہو گئے ۔1971ء میں انہیں غیر منقسم مظفر پور یوتھ گانگریس کا صدر نامزد کیا گیا، اسی سال وہ بہار یونیورسیٹی کے بورڈ آف جرنلیز کے ممبر بنائے گئے ، 1972ء یہ میں انھوں نے اپنی بڑھتی ہوئی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے پٹنہ کو اپنا مستقر بنا یا تو آئین مظفر پور کے بجائے پٹنہ سے آئین نو“ کے نام سے نکلنے لگا،اس وقت اس کی تعداد اشاعت پچہتر سو ( 7500 ) تھی۔
1979ء میں انہیں آل بہار اسمال میڈیم نیوز پیپر بہار شاخ کا صدر بنادیا گیا۔ وہ بہار پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریڑی ، بی پی سی سی اقلیتی سیل کے صدر ، آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرس نئی دہلی کے بانی ممبر ، مخدومیہ لائبریری خواجہ چاند چھپرہ اور نارتھ بہار ریڈرس فورم مدر، پبلک لائبریری چند وار و مظفر پور کے بانی صدر بزم ملت مظفر پور، جو نئیر محمدن اسپورٹس کلب پٹنہ اور بہار یوتھ ایسوسی ایشن کے نگراں تھے۔ وہ دینی تعلیم بورڈ کے ناظم بھی تھے اور نارتھ بہار کسان مزدور سنگھ کے نائب صدر بھی ، اس کے علاوہ بزم فیض مظفر پور کے ممبر ، آل انڈیا قومی یکتا کمیٹی کے جنرل سکریڑی ، میٹھا پور کالج گورننگ باڈی کے ممبر ، بہار ریاستی میں زکاتی پروگرام کمیٹی ، ریاستی کھاری اینڈ ولیج انڈسٹریز بورڈ ، بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈ منسٹریشن نئی دہلی کے ممبر ، بہار اردو جرنلسٹ ایسوایشن کے صدر، کانگریس فور سیکولرمورلٹی کے سکریڑی ، بی پی سی سی آئی کی پسلیسٹی اور پبلک ریلیشن کمیٹی کے کنویز رہے۔
آنجہانی جے پرکاش نرائن کی تحریک کے زمانہ میں جب کانگریسیوں کا بہار میں عرصہ حیات تنگ ہو گیا تھا اور ایک بڑے مجمع نے بہار پردیش کانگریس کے دفتر اور تاریخی یادگار صداقت آشرم کو نذر آتش کرنا چاہا تو شمیم صاحب ان چند لوگوں میں تھے جو اس عظیم یادگار کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہو گئے تھے ، 1979ء میں جب ہندوستانی نوجوانوں کے وفد کے ساتھ سوویت یونین کا دورہ کیا تو انھوں نے وہاں کئی بڑے مجمع کو خطاب کیا ، اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ ان کے انٹرویوشائع کئے۔ اسی سال 15/ جون 1979 ء کو جناب وزیر حسن صدیقی ساکن ماہ پور ضلع سیوان کی لڑکی محترمہ فرحت صدیقی ایم ۔ ایس سی سے آپ کی شادی ہوگئی اور اسی طرح سیاسی ، سماجی خدمات کے ساتھ گھر یلو مصروفیات بھی بڑھ گئیں ، 12 / نومبر 1982ء کو آپ کی بے انتہا کوششوں سے یوم مولانا ابولکلام آزاد کا انعقاد شری کرشن میموریل ہال اور صداقت آشرم میں ہوا، یہ اجتماع اتنا کامیاب تھا کہ روزنامہ قومی آواز پٹنہ نے لکھا: بال اتنا پیک تھا کہ تل رکھنے کو جگہ نہیں تھی اور نظم وضبط بے مثال تھا، ایسی باتیں اب عوامی اجتماعات میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں اور اس کے لئے دونوں تقریبات کے کرتا دھرتا ایم شمیم کو کریڈٹ نہ دینا یقینا بڑی ناسپاسی ہوگی ؛ اگر یہ کہاجائے کہ یہ ون میں شو تھا تو شاید بے جانہ ہوگا”۔ اسی یادگار تقریب میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا نے یہ اعلان کیا تھا کہ سر دست متھلا یو نیورسیٹی میں مولانا آزاد چیر کیا جائے گا ، اس کے بعد ریاست کی دوسری یونیورسیٹیوں میں بھی اس سلسلہ میں ضروری اقدامات کئے جائیں گئے گو یہ اعلان دوسرے سیاسی اعلانات کی طرح آج تک شرمندہ عمل نہ ہو سکا۔
اس کامیاب تقریب کے بعد وہ ڈھائی سال اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے ، فسادات کی روک تھام کرنے اور عوامی و سرکاری سطح پر اردو صحافت کو فروغ دینے کے لئے اپنی صحت و تندرستی کی پرواہ کیے بغیر مصروف عمل رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ صحت گرتی چلی گئی ، بدن لاغر ہو گیا، گردے نے کام کرنا بند کر دیا ؛ چنانچہ ڈاکٹر اندوگھوش کے مشورے سے انھیں چنڈی گڑھ پی جی آئی میں داخل کروا دیا گیا، وہاں ان کے بھائی ہارون رشید نے ایک گردہ دے کر انھیں حیات نو دی ، اچھے ہو گئے تو لوٹ آئے، اور اپنے مکان واقع شریف کالونی میں آرام کرنے لگے، مگر تا بکے ،طبیعت سیمانی تھی اور حسن اخلاق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، اس لئے وہ اپنی جگہ جم کر نہ رہ سکے، دھیرےدھیرے آنے والوں کا استقبال کرنے لگے؛ پھر رخصت کرتے وقت سیڑھیاں بھی اترنے لگے، کچھ دنوں بعد سیاسی پروگراموں میں بھی سرگرم عمل ہو گئے، نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرا گردہ بھی ان کے جسم میں ایک سال سے زائد کام نہ کر سکا، طبیعت بگڑی تو پھر چنڈی گڑھ لے جائے گئے اور وہیں 15/ 16/ اکتوبر 1987ء کی درمیانی شب میں کوئی سوا بارہ بجے جان، جاں آفریں کے سپرد کر دی، چنڈی گڑھ کے قریب ایک دیہات میں تدفین عمل میں آئی ، مرحوم نے پسماندگان میں والد ، دو بھائی، بیوی ایک لڑکا اور دولڑکیاں چھوڑیں۔ وصال کی خبر ملتے ہی اندوہ و ملال کا ایک غبار فضا پر چھا گیا ، کتنی آنکھیں اشکوں سے نہا گئیں اور احساس کے ماتھے پر پگھلی ہوئی چنگاریاں بن کر پھیل گئیں، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں بڑے پیمانے پر ان کا غم منایا گیا، بہار پردیش ، کانگریس کمیٹی ، بہار پردیش قومی ایکتا کمیٹی ، بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ، بہار ورکنگ جرنلسٹ یونین، پلٹنہ یو نیورسیٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن عظیم آباد ہاؤسنگ سوسائٹی نے انھیں صوبہ بہار کا ایک مخلص جاں نثار، بے لوث خادم اور با عزم و پر استقلال سیاسی ، سماجی رہنما کہہ کر خراج عقیدت پیش کیا ، اخباروں نے اداریے لکھے اور شعراء نے مرثیے ، رہبر کمیٹی نے اپنا تاریخی مجلہ سوی نیر کے وجہ تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے 1408 ھ کو ان کے نام منسوب کیا، میرے مقالہ ایم شمیم جرنلسٹ ۔ کچھ یادیں کچھ باتیں“ کو قومی تنظیم نے مؤرخہ 1/ نومبر 1987ءکے شمارے میں جلی اور واضح انداز میں شائع کیا۔ بہار اردو اکیڈمی نے پس از مرگ پانچ ہزار کی رقم دے کر ان کی صحافتی خدمات کو سراہامختصر یہ کہ ان کی موت نے سماج کے ہر طبقہ کو متأثر کیا، رلایااور سب سے عقیدت کا خراج وصول کیا۔ در اصل شمیم صاحب کی زندگی ہی کچھ ایسی تھی ، وہ خدائی خدمت گار کی طرح ہر ایک کے کام آتے تھے، دوسروں کو خوش دیکھ کر خوش اور دوسروں کے غم میں پریشان ہونا ، ان کی عادت بن گئی تھی ، گفتگو کرتے تو معلوم ہوتا کہ سارے جہاں کا دردان کے جگر میں در آیا ہے، ضرورت مند لوگوں کی کان پر بھی لگی رہتی ، سب کی سنتے اور سب کی مدد کرتے ، جب بھی فسادات کی آگ بھڑ کی شمیم صاحب آگے آئے، مظلوموں کی دادرسی کی اور حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں تک ان کی آواز پہونچا کردم لیا، کوئی پریشانی ہوتی ، سفارش کروانی ہوتی، پٹنہ میں کوئی کام ہوتا تو لوگ خاص طور پر ان کے یہاں دوڑ جاتے اور وہ اس طرح مستعد نظر آتے ، گویا اس کے علاوہ انھیں کوئی کام ہے ہی نہیں کبھی کبھی تو ایسا ہوتا کہ بات پوری نہیں ہوتی کہ وہ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے کہ چلئے باقی باتیں راستے میں کر لیں گے، اس قسم کی محبت اور خلوص نے ہی ان کے حلقے کو کافی وسیع کر دیا تھا، ہر مصیبت میں شمیم صاحب کی یاد آتی اور خیال آتا کہ پٹنہ میں شمیم صاحب تو ہیں ہی ، سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا اور پھر ایسا معلوم ہوتا کہ سر سے ایک بوجھ اتر گیا ہے، یہ ان کی شخصیت کا کمال تھا کہ جہاں اور جس آفس میں پہونچ جاتے لوگ ان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور ہر جگہ وہ اپنی دلآویز شخصیت کا عکس چھوڑ آتے۔
آج شمیم صاحب ہم میں نہیں ہیں ، بس ان کی حسین یادیں ہیں، جو سر مایہ حیات بن گئی ہیں، اب وہ قیامت سے پہلے نہ مل سکیں گے، سورج آج بھی اپنی تابانی بکھیر رہا ہے۔ موسم بہار اب کے بھی آئی تھی ، پودوں نے حسین گل بوٹوں کا لباس اب کے بھی پہنا تھا، چڑیوں کی نغمہ سنجیاں آج بھی سنے کو ملتی ہیں مگر وہ بات کہاں جو شمیم کے رہتے تھی؛ لیکن کیا کیاجائے ؟ بس میں ہوتا تو خاک سے پوچھتا کہ اسے لئیم ! ع تو نے وہ گنجہائے گرانما یہ کیا کئے
تحریر: محمد ثناء الہدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ