غزل: اسیرانِ محبت کو رہائی تنگ کرتی ہے

وفا کے ساتھ جانم بے وفائی تنگ کرتی ہے
مجھے تھوڑی سی تیری کج ادائی تنگ کرتی ہے

جدا ہونے سے پہلے تم ذرا یہ سوچ لو جانم
تمہاری ایک پل کی بھی جدائی تنگ کر تی ہے

اداسی میں بدل جاتے ہیں منظر دل لگی کے سب
تمہاری یاد مجھ کو انتہائی تنگ کرتی ہے

کبھی یہ شہر سُونا اور سُونی شہر کی گلیاں
کبھی مجھ کو مری سونی کلائی تنگ کرتی ہے

وہ اپنے حال میں ہی تو بہت خوشحال رہتے ہیں
اسیرانِ محبت کو رہائی تنگ کرتی ہے

میں فرحتؔ ہوں مجھے رنج و الم کرتے نہیں ہیں تنگ
مجھے چین و سکوں کی پارسائی تنگ کرتی ہے

ازقلم: ڈاکٹر فرزانہ فرحت، لندن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے