غزل: ویسے انسانوں کو نگر میں ہم نے دریدہ دیکھا ہے

خون میں لت پت زخمی زخمی ایک پرندہ دیکھا ہے
ویسے انسانوں کو نگر میں ہم نے دریدہ دیکھا ہے

یکجا میں طاقت ایسی قیصر و کسری کانپ اٹھے
ورنہ بکھرے تاروں کا ہم نے بھی نتیجہ دیکھا ہے

کیسے ہیں خاموش ابھی تک رکھوالے قانون کے یاں
اٹھتا ہوا آئین کا اس جا سب نے جنازہ دیکھا ہے

دیکھ کے جس کو شرماتے ہیں جنگل کے حیوان سبھی
ہم نے انسانوں کے نگر میں ایسا درندہ دیکھا ہے

باغ میں کھلتے گل کی انجم اب لگتا ہے خیر نہیں
باغ کی ڈالی ڈالی پر سانپوں کا بسیرا دیکھا ہے

انجم دربھنگوی
جھگڑوا دربھنگہ بہار بھارت
7808600880

One thought on “غزل: ویسے انسانوں کو نگر میں ہم نے دریدہ دیکھا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے