خالد سیف اللہ صدیقی
مولانا سجاد نعمانی کی ایک پرانی ویڈیو پھر سے سوشل میڈیا پر گردش میں ہے ، جس میں موصوف کہتے ہیں کہ "آٹھ لاکھ لڑکیاں مرتد ہو چکی ہیں”۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دعویٰ خلافِ واقعہ ہے۔ مفتی یاسر ندیم الواجدی نے اپنے ایک پروگرام کے دوران اس دعوے کو غلط قرار دیا ہے۔ اسی طرح معروف عالم دین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کا ایک مضمون نظر سے گزرا تھا۔ اس میں بھی مولانا موصوف نے اس طرح کے دعوؤں کی تردید کی تھی۔ ان سب کے علاوہ خود مولانا سجاد نعمانی ہی سے غالباً شمس تبریز قاسمی نے اپنے چینل پر سوال کیا تھا کہ یہ جو آپ نے دعوی کیا ہے کہ "آٹھ لاکھ لڑکیاں مرتد ہو چکی ہیں”۔ اس کا ثبوت کیا ہے ؟ تو اس وقت مولانا نے کہا تھا کہ ہاں میں نے ایسا دعویٰ کیا تھا ؛ لیکن مہاراشٹر کی ایک بہن جو ارتداد ہی کے خلاف کام کرتی ہیں ، انہوں نے کہا کہ میں تو اسی میدان میں کام کرتی ہوں ؛ لیکن مجھے تو ایسی بڑی تعداد مرتدات کی نظر نہیں آتی۔ آپ نے یہ دعویٰ کس بنیاد پر کیا ہے ؟ یہاں پر مولانا اپنے دعوے سے کچھ پیچھے ہٹتے نظر آئے یا کہیے کہ غیر واضح طور پر رجوع کر لیا۔ (مجھے مولانا کے الفاظ یاد نہیں رہے) یا تو یہی ساری باتیں ہیں ، یا پھر یہ ہے کہ مہاراشٹر والی بہن (شبینہ انیس قریشی جن کا نام ہے) ہی نے اپنے چینل پر مولانا نعمانی سے اس تبادلہ خیال کا ذکر کیا تھا ، جس کا نتیجہ مولانا نعمانی کا اپنے دعوے سے تخلف تھا۔ یا پھر تیسری بات یہ ہے کہ دونوں حضرات نے ہی مذکورہ دونوں چینلوں پر مذکورہ نوع کی باتیں ذکر کی تھیں (مدت ، دراز ہو جانے کی وجہ سے صحیح صورت حال ذہن نشیں نہیں رہی)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے اپنے متذکرہ بالا مضمون میں ایک بہت معقول بات رقم کی تھی کہ ہم ان دعوؤں کو ایک طرف ڈال کر اپنے گرد و پیش اور ماحول پر نظر ڈالیں ، تو اس دعوے کا خلاف واقعہ ہونا سمجھ میں آ جاتا ہے____میں کہتا ہوں ، مولانا کی بات بالکل درست ہے۔ ہم ذرا اپنے گاؤں ، شہر اور علاقے پر نظر ڈالیں ، اور شمار کریں کہ کتنی لڑکیاں ہمارے گاؤں ، شہر اور علاقے سے گئی اور مرتد ہوئی ہیں ، تو یہ دعویٰ بالکل جھوٹا معلوم ہوگا۔ میں (صدیقی) خود اپنے علاقے پر نظر ڈالتا ہوں ، تو پانچ دس سالوں کے اندر صرف آٹھ دس معاملے ہی میرے علم و معلومات میں آ سکے ہیں۔ آپ خود بھی اپنے علاقے پر نظر ڈالیے ، اور اعداد و شمار جمع کیجیے ، تو آپ کو اس دعوے کا جھوٹا ہونا بہ خوبی معلوم ہو جائے گا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جب سے ہندوستان میں مسلمان آباد ہیں ، تب سے اب تک لڑکیاں تو دور کی بات ، لڑکے ، لڑکیاں ، مرد ، عورتیں ، بوڑھے ، بوڑھیاں ، بچے ، بچیاں ؛ سب ملا بھی لیے جائیں ، تب بھی اتنے مرتدین و مرتدات نہیں نکلیں گے____ان سب کے باوجود میں کہتا ہوں کہ اگر اٹھ لڑکیاں بھی مرتد ہوئی ہیں ، تو کیوں ؟ یہ بھی تشویش کی بات ہے ، اور مسلم معاشرے کے لیے انتہائی تکلیف دہ!
خلاصہ یہ کہ مذکورہ دعویٰ ایک جھوٹ ہے ، جو بلا سوچے سمجھے پھیلایا جا رہا ہے۔ اور یاد رکھیے کہ ایسے جھوٹ پھیلانے کا کوئی فائدہ نہیں ؛ بلکہ کم زور ایمان اور نادان لڑکیوں کو اور ان پروپیگنڈوں سے تقویت اور حوصلہ ہوگا ، اور پھر وہ اور مرتد ہونا شروع ہو جائیں گی ؛ لہذا ایسے جھوٹ پر مبنی دعوؤں کو سوشل میڈیا پر پھیلا کر مسلم لڑکیوں کے لیے ارتداد کی راہ ہموار نہ کیجیے! اور مسلم معاشرے میں تشویش کا ماحول پیدا نہ کیجیے!