مورخہ 22 / اکتوبر 2024 کے مؤقر روزنامہ پندار پٹنہ کے پہلے صفحہ پر ” مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پر بلڈوزر چلانے کی تیاری ، شیش محل اب تاریخ میں دفن ” کے عنوان سے شائع خبر کو پڑھ کر ماضی کی بہت سی باتیں ذہن میں گردش کرنے لگیں ، ویسے بھی کچھ دن پہلے اشوک راج پتھ سے گذرتے ہوئے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کی مین بلڈنگ کی خستہ حالت کو دیکھ کر افسوس ہوا ، ایسا لگا کہ برسوں سے اس میں مرمت اور رکھ رکھاؤ کا کام نہیں ہوا ، اسی بیچ اب یہ خبر آئی کہ مین بلڈنگ اور شیش محل ہاسٹل کو منہدم کر کے نئی بلڈنگ اور ہاسٹل کی تعمیر کی جائے گی ، خبر کے مطابق محکمہ اقلیتی فلاح کی جانب سے اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر کی جائے گی ،
محکمہ اقلیتی فلاح کی جانب سے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے احاطہ میں اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر کا منصوبہ کئی مرتبہ سامنے آچکا ہے ، چونکہ اقلیتی ہاسٹل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے وقف ڈیڈ سے ہم آہنگ نہیں ، اس لئے اس کے احاطہ میں اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر میں دشواری آتی رہی ، نیز سرکاری افسران کو مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے وقف اراضی کے بارے میں معلومات نہیں ، اس لئے وہ غلط فیصلہ لیتے رہے ، اور یہ سمجھتے رہے کہ وہ مدرسہ کے لئے فلاح کا کام کر رہے ہیں ، جبکہ محکمہ کا فیصلہ مدرسہ کے حق میں مفید نہیں تھا ،
سرکاری منصوبہ کے مطابق محکمہ اقلیتی فلاح کے ذریعہ اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر کرائی جاتی ہے ، جس کا مقصد یہ ہے کہ اقلیتی طبقات کے طلبہ کو ہاسٹل میں رکھ کر تعلیم حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرائی جائے ، اقلیتی طبقات میں جتنی اقلیتیں ہیں جیسے سکھ ، عیسائی ، بودھ اور جین سبھی شامل ہیں ، یہ قانونی مسئلہ ہے ، اقلیتی ہاسٹل پر قانونی طور پر تمام اقلیتوں کا حق ہوگا ، مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے احاطہ میں اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر کے وقت اس مسئلہ پر مدرسہ کی گورننگ باڈی کی میٹینگ میں غور و خوض کیا گیا ، غور و خوض میں یہ بات واضح ہوئی کہ یہ مدرسہ پورے طور پر گورنمنٹ کے محکمہ تعلیم کے تحت ہے ، یہ حکومت بہار کے ضلع اسکول کے معیار کا ہے ،اس لئے محکمہ تعلیم اس میں بلڈنگ ،ہاسٹل وغیرہ بنانے ، تاکہ اس کی عمارت بھون نرمان ویبھاگ کی ہو اور اس کی مرمت اور رکھ رکھاؤ کا کام مذکورہ محکمہ کے ذریعہ ہوتا رہے ،
جہانتک اقلیتی ہاسٹل کی بات ہے تو اس کے سلسلہ میں گورننگ باڈی نے یہ فیصلہ لیا کہ مدرسہ شمس الہدیٰ کو ہاسٹل کی ضرورت ہے ، اس کے احاطہ میں اقلیتی ہاسٹل اس شرط کے ساتھ بنائی جائے کہ ہاسٹل وقف ڈیڈ کی روشنی میں تعمیر ہو ، مدرسہ شمس الہدیٰ کا ہاسٹل ہو ، وہ ہاسٹل صرف مدرسہ شمس الہدیٰ کے طلبہ کے لئے ہو اور مدرسہ کے پرنسپل کی نگرانی میں رہے ، ماضی میں مدرسہ کے احاطہ میں اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر ہوئی ،اس کے لئے حکومت کی جانب سے باضابطہ مذکورہ شرائط پر منظوری نامہ جاری کرنے کے بعد اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر ہوئی ، چنانچہ مدرسہ کے احاطہ میں تعمیر شدہ اقلیتی ہاسٹل اسی ضابطہ کے تحت چل رہا ہے
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے احاطہ میں مین بلڈنگ کا نصف مشرقی بالائی حصہ تعمیر ہوا ، لائبریری بلڈنگ کی تعمیر ہوئی ، شیش محل کا مشرقی حصہ بالکل منہدم ہوگیا تھا ، اس کی تعمیر کا کام مکمل ہوا ، اس پر بالائی منزل کی تعمیر ہوئی ، تعمیر کے بعد سبھی کا اندراج بھون نرمان ویبھاگ کے رجسٹر میں کروایا گیا ، تاکہ ہر سال اس کی مرمت اور رکھ رکھاؤ کا کام ہوتا رہے ، اگر نہیں ہورہا ہے تو اس جانب توجہ کی ضرورت ہے ، ساتھ ہی اس کی بھی ضرورت ہے کہ اگر ہاسٹل کی تعمیر اقلیتی ہاسٹل کے نام پر ہورہی ہے ، تو ملک کے حالات کے پیش نظر اسی شرائط کے ساتھ اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر ہونی چاہیے ،جن شرائط کے ساتھ ماضی میں اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر ہوئی ہے ، یہ ذمہ داری مدرسہ گورننگ باڈی کی ہے ، مدرسہ گورننگ باڈی کو اس جانب توجہ کی ضرورت ہے
اس موقع پر یہ تذکرہ بھی مناسب ہے کہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ایک امانت ہے ، اس کا قیام 1912 میں عمل میں آیا ،اور 1919 میں حکومت کی تحویل میں دیا گیا ، یہ ادارہ شاندار ماضی کا امین ہے ، مگر موجودہ وقت میں حکومت کی بے توجہی کا شکار ہے ، موجودہ دور تعلیم کا ہے ، خوشی کی بات ہے کہ بہار کی حکومت اقلیتوں کی تعلیم اور فلاح و بہبود کی جانب توجہ دے رہی ہے ، حکومت کو چاہئے کہ مسلم اقلیت کے بچوں کی تعلیم کی جانب خصوصی توجہ دے ، حکومت اس ادارہ کو ترقی دے کر مدارس کی تعلیم کو فروغ دے ،
موجودہ وقت میں حکومت مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے جملہ مدارس ملحقہ کی جانب توجہ دے ، مدرسہ کے جونئیر سیکشن میں ابھی تک باضابطہ اساتذہ کی تقرری نہیں ہوئی ، اساتذہ ڈیپوٹیشن پر کام کر رہے ہیں ، اس کے علاؤہ سینیئر ںسیکشن میں اساتذہ کی کمی ہے ، پرنسپل سمیت کل 9/ عہدے منظور ہیں ، جبکہ یہاں مولوی یعنی انٹرمیڈیٹ سے فاضل یعنی ایم اے تک کی تعلیم ہوتی ہے ،
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے احاطہ میں جگہ ہے ، مدارس کے طلبہ کے لئے اس میں مدارس کی تعلیم کے ساتھ بہت سے کورس چلائے جا سکتے ہیں ، مگر افسوس کی بات ہے کہ حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے کچھ بھی نہیں ہوسکا ، اگر حکومت کی توجہ ہو جائے ، تو اس میں پھر بہار آجائے ، یہ اشوک راج پتھ پر واقع ہے ، ہر آنے جانے والے کی نظر پڑتی ہے ،اس کی وجہ سے حکومت کی بدنامی ہو رہی ہے ،
موجودہ وقت میں حکومت کو چاہئے کہ اس تاریخی مدرسہ کے تحفظ کو یقینی بنائے ، بہار میں مدرسہ ایجوکیشن کے فروغ میں اس ادارہ کا اہم رول ہے ، اس کی وجہ سے بہار مدرسہ ایکزامینیش/ ایجوکیشن بورڈ کا قیام عمل میں آیا ، گورنمنٹ طبی کالج کا قیام اس کی وجہ سے ہوا ، اس نے ادارہ تحقیقات عربی و فارسی ،پٹنہ کو وجود بخشا ، مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی کا قیام اس کی وجہ سے ہوا ، اتنے بافیض ادارہ کی حکومت نے قدر نہیں کی ، افسوس ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے۔
ازقلم: (مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی