صوبہ جھارکھنڈ میں علم و ادب کی کرنیں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں ۔ ہر آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے بہتر سے بہتر ہوتا جارہا ہے ۔ علم و ادب کے موتی ہر سو جگمگانے لگے ہیں ۔ جس سے اب دنیا کی نظریں اس جانب اٹھ ڑہی ہیں ۔ پرانے وقت میں بھی علم و ادب کا ستارہ جگمگاتا رہا ہے لیکن کچھ بے رخا جملوں کے گھنے بادل میں اس کی روشنی مدھم نظر آرہی تھی ، اس بے رخا جملوں کا بادل ابھی بھی منڈلا رہا ہے لیکن کہکشاں کی درخشانی پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ پاشی کررہی ہے ۔ میں تو یہی کہوں گا کہ جو اب بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ۔۔۔ جھارکھنڈ سن بلوغ کو نہیں پہنچا ہے۔۔ وہ ذرا تاریخ کا قاری ہوجائیں اور دور حاضر پر بھی نظر ڈالیں پھر حقیقت جگ ظاہر ہو جائے گی اور سارا وہم کافور ہو جائے گا ۔ نمونے کے طور پر طنز و مزاح کے ماہر ادیب اور زبان و قلم کے شہسوار طبیب احسن تابش کو آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں ۔
طبیب احسن تابش جھارکھنڈ کے عصری منظر نامہ میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہیں ۔ محترم ایک کہنہ مشق ادیب اور ماہر قلمکار ہیں ۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ۔۔ طنز و مزاح ۔۔ کو اپنا فن بنایا جس کے بارے میں ۔۔ وزیر آغا ۔۔ اپنی کتاب ۔۔۔ طنز و مزاح آغاز و ارتقا ۔۔ میں لکھتے ہیں ” سنجدیدہ تحریریں اور سنجیدہ شاعری پر لوگوں نے بہت طبع آزمائی کی لیکن اردو نثر میں طنز و مزاح کا دامن بہت تنگ ہے، جبکہ کائنات کی خوبصورتی سنجیدگی سے کہیں زیادہ ظرافت ، خوش طبعی ، خوش دلی میں ہے”
وزیر آغا اپنے اس تحقیق میں مکمل پختہ ہیں اس چیز کا میں دعویٰ نہیں کرتا اور نہ ہی ان کی بات کو حرف آخر گردانتا ہوں ۔ رشید احمد صدیقی کی کتاب ۔۔ طنزیات و مضحکات ۔۔ میں ایسا ہی کچھ لکھا ہے ۔ یہاں پر بھی مذکورہ بالا جملوں پر اکتفا کرتا ہوں ، لیکن آپ کم ازکم دنیا بھر میں نظر دوڑائیں تو دس فیصد ہی آپ کو ایسے ادیب ملیں گے جنہوں نے اردو نثر میں طنز و مزاح کو اپنایا ہو ۔ شاعر تو مزاح میں بہت ہیں لیکن نثر میں اتنے ہی کم ہیں ۔ طبیب احسن تابش کی شخصیت اس حوالے سے بہت نمایاں ہیں ، اور خوش بختی کی بات یہ ہے کہ یہ گرانمایہ موتی جھارکھنڈ کے ماتھے پر چمک رہا ہے ۔ موصوف نے کب سے لکھنا شروع کیا اس بحث کو میں یہیں پر چھوڑتا ہوں ۔ ابھی ان کی ایک تازہ تصنیف ۔۔ تو تو میں میں ۔۔ باصرہ نواز ہوئی جس کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ یوں تو موصوف کی تحریریں ملک بھر کے اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں قارئین بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور خوب داد و تحسین سے نوازتے ہیں ۔ یہ محترم کی مقبولیت کی دلیل ہے ۔
۔۔ تو تو میں میں ۔۔ مجھے بھی ہاتھ لگی ۔ پڑھنا شروع کیا تو بس پڑھتا ہی چلا گیا ۔ ہر عنوان مکمل کی جستجو کررہا تھا ۔ پڑھ کر ایسا لگا کہ مصنف نہ صرف مزاح کرنا جانتے ہیں بلکہ مزاح کے پیچھے سماج کا وہ خونی منظر بھی بیان کرتے ہیں جس سے معاشرہ لہو لہان ہے ۔ یہ مصنف کی بھی اور فن طنز و مزاح کی خصوصیت ہے کہ آپ اگر مزاح کو نچوڑیں تو آنسو ٹپک پڑے ۔
عنوان پر غور کریں ۔۔ کاش چھپ جاتی میری تصویر ۔۔ پڑھنے میں اگر چہ دل میں گدگدی پیدا ہوتی ہے لیکن حقیقت پر غور کریں ہمارا معاشرہ کس ڈگر پر جا رہا ہے ۔ سستی شہرت بٹورنے کیلئے کس حد تک انسان پہنچ جاتا ہے کہ اسے اخلاقی اقدار یاد ہی نہیں رہتا ۔
ہائے رے موبائل ۔۔ موبائل نے کیا گل کھلایا ۔ اور کیسا زہر ذہنوں میں بودیا کہ عقلیں مفلوج ہوکر رہ گئیں ۔ کئی کیسزز ایسے بھی سامنے آئے کہ موبائل نہ ملنے کی پاداش میں بیٹا باپ کا قاتل بن گیا ۔ مزید خرابیاں آپ بخوبی جانتے ہیں ۔
مردوں سے انٹرویو ۔۔ کہتے ہیں کہ ۔۔ اب پچتاوت کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔۔ دنیا میں بھیجا ہی گیا تھا اسی لئے کہ انسان آخرت کی تیاری کرے مرنے کے بعد چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔
قربانی کا بکرا اور میں ۔۔ قربانی نام ہے تزکیہ نفس کا ، اپنے اندر اخلاص پیدا کرنے کا ۔ لیکن نام و نمود میں معاشرہ گھر گیا ہے ، قربانی کی روح ختم ہو چکی ہے ،اور صرف گوشت خوری کو قربانی سمجھ لیا گیا جو کہ حقیقت سے بہت بعید ہے ۔
فقیروں کی کانفرنس ۔۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقت بخشی ہے ، عقل سے نوازا ہے ۔ توانائی دی ہے ۔ اور رزق کا ذمہ خود لے رکھا ہے پھر انسانوں سے امیدیں کیسی ؟؟
آمد اور آورد کی شاعری ۔۔ ہر شخص زبردستی بنا محنت کے فنکار بننا چاہتا ہے اور اگر ہاتھ پاؤں پھول گئے ہوں تو پھر دوسروں کی تخلیقات کو چوری کرنے پر اتر آتاہے نتیجہ میں رسوائی کا سامنا ہوتا ہے ۔
دماغ خراب مت کرو ۔۔ مشہور جملہ ہے ۔ لیکن مصنف نے اس کی حقیقت ، اس کی کنہ کو جس انداز میں سمجھایا ہے گویا ذہن میں نقش ہوگیا ۔
وعلیکم السلام ۔۔۔ سلام یہ سنت رسول ہے ۔ اور یہ حکم ہر چھوٹے بڑے کو ہے تو پھر تفریق کیوں پیدا ہوئی ؟؟
آئے پھینکنا سیکھیں ۔۔۔ کہا جاتا ہے ہر ہر لفظ کا حساب ہوگا ۔ لمبی لمبی چھلانگیں لگانے والا اپنی عاقبت خراب کرنے میں کیوں تلے ہیں ۔
گھر سے گھر والی تک ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تنہائی کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ بنایا ہے اور وہ ہے گھر والی ۔۔ ایک عورت انسان کی زندگی میں کتنی اہم ہیں یہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے ۔ اسی لئے شریعت نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی پرزور الفاظ میں حکم فرمایا ہے ۔ جب انسان اس کو بوجھ سمجھنے لگتا ہے پھر پریشانیاں اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہیں ۔
پاکٹ سے پاکٹ ماری تک ۔۔ نا جائز کسی کا ایک دانہ بھی حرام ہوتا ہے ۔ لیکن یہاں تو خزانہ لوٹ لیا جاتا ہے اور فخر سے کہتے ہیں ہم نے بڑا کارنامہ انجام دیا ۔۔
یہ تو چند نمونے ہیں جو یہاں پیش کئے گئے ہیں ۔ ورنہ ہر عنوان ایک داستان ایک سبق لئے ہوئے ہے ،
آپ ان تحریروں کو پڑھیں تو یقیناً لطف آئے گا لیکن سنجیدگی سے دل پر ہاتھ رکھ سوچیں گے تو یقیناً آنکھوں سے خون ٹپکے گا ۔ مصنف اپنے اس فن میں کامیاب ہیں کیونکہ انہوں نے ہنستے ہنساتے قوموں کا درد بیان کیا ہے ۔
،
کہا جاتا ہے کہ مزاح ہر صنف میں سب سے زیادہ حلال صنف ہے کیونکہ نظم، غزل، یا پھر افسانے کہانیاں عاشق و معشوق کے درمیان گردش کرتے ہیں ۔ لیکن مزاح میں محبوب اور محبوبہ چاہیے وہ شاعری ہو یا پھر نثر دونوں میں محبوبہ بیوی ہوتی ہے ۔ مصنف نے اس روایت کو برقرار رکھا ہے ،
بہر حال ۔۔ کتاب پڑھ کر خوشی ہوئی ۔ مصنف کے سینہ میں جو دل کی دھڑکن ہے اس نے ہمیں بھی کچوکے لگایا ۔ اپنے فن کا خوب مظاہرہ کیا ۔ مزاحیہ انداز میں اچھا سبق دیا ۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ بر وقت عمدہ اشعار کا انتخاب ہوا ہے جس سے بات مضبوط اور مددلل ہوگئی ہے ۔ کتاب کی طباعت بھی خوب ہے ۔ ورق میں بخل سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ اچھے کاغذات کا استعمال ہوا ہے ۔ منصف کیلئے ڈھیر ساری دعائیں اور نیک تمنائیں ۔
ازقلم: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ