کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

اللہ تعالی نے اپنے آخری رسول محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین فرمایا، یعنی اللہ تعالیٰ عالمین یعنی تمام جہانوں کا خالق اور پروردگار ہے اور اپنے محبوب کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ کی حیثیت اللہ تعالیٰ کی جانب سے داعی اعظم کی تھی، آپ کی آمد جس دور میں ہوئی مکہ المکرمہ میں کفار، مشرکین، یہود، نصاری اور بعض توحید پرست تھے ،آپ کی زندگی اظہار نبوت سے قبل کی ہو یا 40 برس کے بعد بحیثیت نبیِ آخر الزماں کی، آپ کا عہد طفولیت ہو یا عہد شباب یا جوانی کے بعد 63 برس کا عہد۔آپ نے نہ کبھی کسی کو اپنی جانب سے تکلیف پہنچائی اور نہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا فرمایا ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے تعلق سے ارشاد فرمایا:
اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ (الم نشرح، آیت:۴)
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ (القلم، آیت:۴)
آپ نے اپنے ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا:
ترجمہ: اور انہیں گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے یونہی ہم نے ہر اُمت کی نگاہ میں اس کے عمل بھلے کردیے ہیں پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے اور وہ انہیں بتادے گا جو کرتے تھے۔(کنز الایمان)
تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: 108، ج:2، ص؛100 میں ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ کا قول ہے کہ مسلمان کفار کے بتوں کی بُرائی کیا کرتے تھے تاکہ کفار کو نصیحت ہو اور وہ بت پرستی کے عیب سے باخبر ہوں مگر ان ناخدا شناس جاہلوں نے بجائے نصیحت حاصل کرنے کے شانِ الٰہی میں بے ادبی کے ساتھ زبان کھولنی شروع کی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگرچہ بتوں کو برا کہنا اور ان کی حقیقت کا اظہار طاعت و ثواب ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کفار کی بدگوئیوں کو روکنے کے لیے اس کو منع فرمایا گیا۔

احادیث نبویہ میں دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کی توہین کرنے سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔ سرِ دست ہم ایک حدیث نقل کرتے ہیں:
حضرت ثابت بن الحجاج الکلابی روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا کہ سنو ! گرجے میں موجودراہب کو نہ قتل کیا جائے “۔ (کنزالعمال:جلد دوم:حدیث نمبر 6301)
اب آپ غور فرمائیں ، آج دنیا میں گوگل سروے کے مطابق 4200 مذاہب ہیں مگر آج سب سے زیادہ تیزی سے مذہب اسلام پھیل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اخلاق و کردار کی وہ عظمت عطا فرمائی ہے کہ زمانہ ان کی اداؤں پر قربان ہو جاتا ہے اور یہ بھی سچائی ہے، آج عالمی سطح پر سب سے زیادہ مخالفت اسلام اور مسلمانوں کی ہو رہی ہے۔ اس مخالفت اور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کی وجہ امت مسلمہ کا توحید و رسالت سے وابستگی اور شیفتگی ہے، اسی لیے مستشرقین اور دیگر مذاہب کے بعض بد باطن افراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اور اپنی ہرزہ سرائیوں سے عالم اسلام کے دلوں کو ٹھیس پہنچاتے ہیں مسئلہ صرف یہود و نصاریٰ کا نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے شر انگیز طبقات بھی پیکرِ اخلاق مصطفی جانے رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم کے تعلق سے بکواس کرتے ہیں حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کے عشق و محبت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔توہین کم ہو یا زیادہ ،مسلمانوں میں جوشِ عشق بڑھ جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتیں بڑی چالاکی سے ان شاطروں کی حمایت اور پشت پناہی کرتی ہیں اور ان بدمعاشوں کی مخالفت میں دو جملے بولنا بھی گوارا نہیں کرتیں۔ اسی طرح عام طور پر کورٹیں بھی سراپا خاموشی کی چادریں لپیٹ کر ادھر ادھر دیکھتی رہتی ہیں ۔
یہ بھی ایک سچائی ہے کہ جو لوگ صحیح کہنے کی جرأت رکھتے ہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منصفانہ تعلیمات اور ان کے حق و انصاف پر سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ دنیا میں کثیر تعداد میں ایسے غیر مسلم ہیں جنھوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کی ہے سر دست ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں:
امریکی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب ”دی 100“ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخ کی کامیاب ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کا راز کیا تھا؟ یہ راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ جنگ کی بجائے پر امن حل کو ترجیح دی۔ انھوں نے محاذ آرائی اور غیر ضروری تنازعات سے گریز اور مفاہمت کی پالیسی اپنائی، جو ان کی ہر محاذ پر قابل ذکر کامیابی کا اہم عنصر تھا۔
مگر افسوس صد افسوس رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ہمارے ملک کے بعض ہندو بھی پیش پیش ہیں۔ ہندوستان کی حکمران جماعت بی جے پی کی قومی ترجمان خاتون نے ایک ٹی وی چینل پر مغلظات بکیں ، اس ملعونہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس و مظہر ذات اور قرآن کریم کو اپنی دریدہ دہنی کا نشانہ بنایا۔ جو نہی یہ خبر عام ہوئی تو ہندوستان سمیت پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور مسلمانوں نے اس ملعونہ کی دریدہ دہنی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا، جس میں ہندوستان کی حکومت سے اس ملعونہ کو سزادینے کا مطالبہ زور و شور سے اٹھایا گیا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں اور مسلم تنظیموں نے اس گستاخی کے خلاف اپنے بھر پور جذبات کا اظہار کیا، خصوصا عرب دنیا اس بار سب سے بازی لے گئی۔ سعودی عرب، کویت، قطر، لیبیا، مصر، انڈونیشیا، بحرین، مالدیپ، عمان ، اردن اور ایران نے با قاعدہ سرکاری سطح پر اس گستاخی کا نوٹس لیا اور کئی ممالک نے ہندوستانی سفیر کو طلب کر کے اسے احتجاجی مراسلہ تھمایا۔ نیز ان ممالک کے بڑے بڑے اسٹورز اور شاپنگ سینٹرز نے ہندوستانی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا، جس سے ہندوستانی حکومت کو بہت زیادہ دھچکا لگا، کیونکہ عرب ممالک سے ہندوستان کے تجارتی تعلقات بہت بڑے پیمانے پر قائم ہیں۔
رام گری مہاراج نے 15 اگست 2024 کو اپنے مذہبی پروگرام میں اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بکواس کی اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے اپنے لفظوں سے اس کی پشت پناہی کا وعدہ کیا ،بعد میں نرسنگھا نند سوامی نے کھلی بےہودگی کی، ان دونوں کے خلاف مہاراشٹر اور پورے ملک کے مسلمانوں نے احتجاج کیا اور ان دونوں کے خلاف کثیر ایف آئی ار درج کرائی، مگر حکومتوں نے وہی کیا جو ان کے دماغوں میں پہلے سے طے تھا، نہ تفتیش اور نہ گرفتاری۔ ”بھیا بنے کوتوال تو اب ڈر کاہے کا“۔
ہم مبارک بادیوں کے گلدستے پیش کرتے ہیں امتیاز جلیل کو جنھوں نے اورنگ آباد مہاراشٹر سے تحفظ ناموس رسالت کے تحت عظیم الشان ریلی کا اہتمام کیا۔ اور وہ بھی پہلے سے نہ کوئی پبلک سٹی اور نہ پر چار خاموشی سے کچھ لوگوں کو آمادہ کیا نکل پڑے اور وہ اس شعر کے مصداق بن گئے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

ملک بھر میں کثیر ایم پی ، اور ایم ایل اے مسلمان ہیں لیکن یہ کام اللہ تعالیٰ کو جس سے لینا تھا لے لیا۔ کتنے طاقت ور اس زبر دست احتجاجی مظاہرے کو دیکھتے ہی رہ گئے۔ناموس رسالت کے لئے اتنی عظیم الشان ریلی تاریخ کا حصہ بنے گی۔امتیاز جلیل صاحب نے ہمت مردانہ سے کام لیا ہے اور اپنے اسلاف مجاہدین کی یاد تازہ کر دی ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لیے حدِّ نظر شیدائی آگے آئےیہ کوئی معمولی نہیں بلکہ بہت بڑی بات ہے، اللہ کریم یہی جذبہ تمام مسلمانوں کے دلوں میں بیدار فرمائے اور حضور کی عزت و ناموس کے لیے جان و مال نثار کرنے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین ۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے بہرائچ فسادات انتہائی درد ناک ہیں، اس میں ایک ہندو شر پسند رام گوپال مشرا کی گولی لگنے سے موت واقع ہوئی اس کے بارے میں بی جے پی لیڈر نپور شرما نے ایک عوامی تقریب میں کئی جھوٹے دعوے کیے ، مذکورہ تقریب میں دو گور نر بھی موجود تھے ، سوشل میڈیا پر سخت رد عمل کے بعد معافی مانگی، کانگریس نے اتر پردیش پولیس سے پنپور کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
نپور شرمانے ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گوپال مشرا کو مسلمانوں نے بے دردی سے قتل کیا، اس کی آنکھیں نکالی گئی تھیں اور پیٹ پھاڑا گیا اور اس کے ناخن تک اکھاڑ لیے۔ نپور شرما نے زہر افشانی کرتے ہوئے ملک کے اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے پر زور دیا اور تقریب میں موجود لوگوں میں خوف پھیلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ یہ لڑائی دھرم کی ہے، اگر تم تقسیم ہو جاؤ گے تو کٹ جاؤ گے۔ قابل ذکر ہے کہ نپور شرما پہلے بھی کئی بار اشتعال انگیزی کر چکی ہیں۔ انھوں نے رام گوپال مشرا کے قتل کے بارے میں جس طرح کے جھوٹے دعوے کیے بہرائچ پولیس پہلے ہی انہیں مستر کر چکی ہے اور گمراہ کن خبریں پھیلانے والوں کے خلاف سخت وارننگ جاری کی ہے۔ سرکاری پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس نے واضح کیا تھا کہ مشرا کی موت کسی بھی جسمانی تشدد یا حملے کی بجائے گولیوں کے متعدد زخموں سے ہوئی۔ اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس کی ترجمان سپر یہ شرینیت نے نپور شرما کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ وہی بی جے پی والی نپور شرما ہیں اور لوگوں کو یادہے کہ انھوں نے کیا کیا تھا، یہی وہی نپور شرما ہیں جو شانِ رسالت میں پہلے بھی گستاخی کر چکی ہیں اب یہ فرضی خبر پھیلا کر نفرت بھڑکا رہی ہیں۔ صحافی سچن گپتا نے نپور شرما کی تقریر کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ بی جی پی لیڈر ایک عوامی تقریب میں بہرائچ کے رام گوپال شرما کے فرضی پوسٹ مارٹم کے بارے میں بتا رہی ہیں، اس تقریب میں دو گورنر بھی موجود تھے۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگ بہرائچ پولیس کے بیان کے ساتھ نپور شرما کے جھوٹ کا پردہ فاش کرتے ہوئے یوپی پولیس سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ توہین رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سزا تو اسلام نے قتل طے کی ہے ، عہدِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے آج تک کثیر گستاخوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مگر یہ سزا اسلامی ممالک میں نافذ ہوتی ہے، جمہوری ممالک میں کسی کو جان سے مارنا بجاے خود قاتل قتل کا مجرم ہے ، ہاں مگر ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں تمام مذہب والوں کو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے اور اپنے مذہبی پیشواؤں سے عشق و عقیدت رکھنے کی اجازت ہے ، اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والے کو دوسرے مذہبی پیشواؤں کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہے، اگر کوئی کرتا ہے تو اس کے خلاف سخت احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کرنا چاہیے اور حکومت اور کورٹ کے ذمہ دار ی کہ وہ مجرم کو سخت دلائے اور جن حضرات کو تکلیف پہنچی ہے، انھیں انصاف دلائیں۔
علامه سید محمد امین ابن عابدین حنفی متوفی ۱۲۵۲ ھ لکھتے ہیں:
جو شخص علی الاعلان نبی ﷺ کو سب و شتم کرے یا عاد تا سب و شتم کرے تو اس کو قتل کر دیاجائے گا خواہ وہ عورت ہو ۔(رد المحتار ج ۳ ص ۲۷۸، مطبوعہ بیروت، ۱۴۰۹ھ ) ۔
شوکانی لکھتے ہیں: حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حدیث شعبی اس بات کی دلیل ہے کہ نبی ﷺ کو سب وشتم کرنے والے کو قتل کر دیا جائے گا اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے شاتم رسول ﷺ کے وجوب قتل پر اتفاق نقل کیا ہے ، امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس فعل شنیع کا مرتکب اگرمسلمان ہو تو اس کے وجوب قتل میں کوئی اختلاف نہیں۔(نيل الأوطار ص 214 ج 7)
شوکانی اس کے بعد لکھتے ہیں : جو شخص مسلمان ہو کر اہانت رسول ﷺ کا ارتکاب کرتا ہے ، وہ مرتد ہے بلکہ مرتد سے بھی زیادہ سنگین مجرم ہے کیونکہ توہین رسالت ﷺ کے مجرم کی سزا قتل ہے جو تو بہ سے بھی معاف نہیں ہو سکتی ، جب کہ عام مرتد کی سزا تو بہ کرنے سے معاف ہو جاتی ہے، چنانچہ مرتد کے بارے میں ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
جمہور اہل علم کا موقف یہ ہے کہ مرتد سے تو بہ کا مطالبہ کیا جائے ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے کہ مرتد سے تو بہ کا مطالبہ کیا جائے اور پھر مطالبہ کرنے کے بعد اسے تین دن کی مہلت دی جائے ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی مذہب یہی ہے، حنفیہ میں سے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ تو بہ کرنے سے پہلے مرتد کو قتل نہ کیا جائے البتہ اگر وہ مہلت مانگے تو اسے تین دن کی مہلت دی جائے۔( الصارم المسلول ص 321)
فاتح بیت المقدس حضرت صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے جب بیت المقدس کو فتح کیا تو آپ نے عام معافی کا اعلان کیا لیکن ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ آج ہر ایک کے لئے معافی ہے سوائے ایک شخص کے جس نے میرے پیارے آقا و مولی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ اقدس میں گستاخی کی ، جب تک اس گستاخ رسول کو انجام تک نہیں پہنچاؤں گا چین سے نہیں بیٹھوں گا ، اس گستاخ رسول نے پوری امت مسلمہ کو چیلنج کیا تھا کہ (نعوذ بالله من ذالك ) کہ – کہاں ہے تمہارا محمد (ﷺ) آکے بیت المقدس کو کیوں نہیں چھڑاتا ، حضرت صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس گستاخ رسول ﷺ کو تلاش کر کے سب لوگوں کے سامنے اس گستاخ رسول ﷺ کو قتل کیا اور للکار کر کہا کہ اس سلطنت میں گستاخ رسول ﷺ کے علاوہ ہر ایک کو رہنے کی اجازت ہے، آپ نے اس گستاخ رسول کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے آقا کو چیلنج کرنے والے گستاخ آج اس محمد عربی ﷺ کا غلام بیت المقدس کو آزاد کرنے آیا ہے، کسی گستاخ میں ہمت ہے تو سامنے آئے ، حضرت صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس گستاخ رسول کو واصل جہنم کرنے کے بعد سکون کا سانس لیا اور نبی کریم ﷺ کے ہر امتی کو ناموس مصطفی ﷺ پر مرمٹنے کا عملی درس دیا کہ گستاخ رسول ﷺ کا انجام سواے موت اور واصل جہنم کے اور کچھ نہیں۔
( الروضتين في اخبار الدولتين ج 2 ص 81، مطبوعہ دار الجیل بیروت)
یہود و نصاریٰ ہمیشہ سے اسلام اور مسلمانوں کو دنیا سے مٹانے کی ناپاک سازشیں اور جد و جہد کرتے آئے ہیں اور اپنے تمام وسائل، تمام طاقت اور تمام مال و دولت اپنے ان ناپاک منصوبوں کی تکمیل میں صرف کرتے آئے ہیں ۔ اور آج بھی بیت المقدس اور فلسطین کی سر زمین پر اسرائیل و امریکہ مسلم عورتوں، بچوں اور مردوں کے ساتھ یہی ناپاک کھیل کھیل رہا ہے۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے بدر واحد ہو یا احزاب و حنین ،صلیبی جنگوں کا سلسلہ ہویا تاتاریوں کی یلغار ، اسلام ہمیشہ سر بلند رہا۔
برسوں سے یہی بے ہود گیاں ہندوستان کے بعض سادھو سنتوں اور میڈیا نے شروع کی ہے۔ عالمی اور ملکی سطح پر زبردست احتجاجات ہوئے اور ایف آئی آر بھی کثیر جگہوں پر درج ہوئیں، مگر یہ سب کچھ حکومتوں کے اشاروں پر ہو رہا ہے ۔ بی جے پی اور دیگر ہندو تو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ظالموں کی حیثیت سے الگ کر دیا جائے تاکہ ہندو اور دیگر افراد ان کے ساتھ ہوں اور وہ الیکشن جیت کر اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے رہیں مگر اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہے، وہ اپنے محبوب کی توہین کرنے والوں کو ناکام ہی رکھے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

تحریر: مبارک حسین مصباحی
استاذ جامعہ اشرفیہ مبارکپور
و چیف ایڈیٹر ماہ نامہ اشرفیہ، مبارک پور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے